سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 38 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

198

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)

ستی (پاروتی) پری کے جسم کے یہ باون ٹکڑے مغرب میں بلوچستان سے لے کر، مشرق میں گوہاٹی تک، اوریہاں سے بہت دورسری لنکا تک پورے جنوبی ایشیا میں جگہ جگہ گرے۔ جہاں جہاں یہ ٹکڑے گرے وہاں ”تیرتھ استان“ یعنی مقدس زیارت گاہیں قائم ہوئیں، مختلف ناموں سے۔ بلوچستان کا ہنگلاج (کُنراج پہاڑ میں واقع) سب سے مقدس ٹھہرا، اس لیے کہ پاروتی پری کا سر یہاں گرا۔ اس کا نام ہوا: ہنگلاج تیرتھ۔

پتہ نہیں اُس زمانے میں انسان کو جغرافیہ کس طرح معلوم تھا کہ وہ قطب نما، خلائی جہاز اور دیگر آلات کے بغیر پاروتی کی لاش کے باون ٹکڑے تلاش کر بیٹھا۔ اور وہ بھی، ایک ٹکڑا بلوچستان اور دوسرا ہزاروں میل دور گوہاٹی میں۔

…… ہم پھر آپ کو خبردار کرتے ہیں کہ مائتھالوجی کے مزے لو، سوال نہ پوچھو۔ یہ ہمارے اجداد کی قائم کردہ داستانیں ہیں۔ انہیں فخر سے سنو، اپنے بچوں کو کہانی کے بطور سناؤ۔ اور اپنے ادب پہ نازاں ہو جاؤ، اپنی قدامت اور اپنی دھرتی کی تقدیس پہ اتراؤ۔

چوں کہ ستی، یا، پاروتی پری کا سر بلوچستان میں ہے، اس لیے اُس کا ہنگلاج بقیہ اکیاون زیارت گاہوں میں سب سے مقدس ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ستی پری سے وابستہ اِن سارے باون مقدس مقامات کو کوئی بھی گزند نہیں پہنچاسکتا، اس لیے کہ اِن سارے مقامات کی حفاظت شیو دیو کا ایک خون خوار دیو کرتا ہے۔ (تقدسات کی حفاظت ہمیشہ انسان سے زیادہ طاقت ور ماورائی قوتیں کرتی ہے)۔

ایک مقبول ترین روایت یہ بھی ہے کہ ”وچاتر“ نامی ایک بادشاہ تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے: ہنگول اور سندر۔ وہ بہادر مگر ظالم تھے اور عیاش زندگی گزارتے تھے۔ وہاں کے لوگ شیو دیوتا کے پیروکار تھے۔ شہزادہ سندر نے اِن علاقوں پر حملہ کیا اور ہزارو ں کو قتل کردیا اور سونے کے زیورات لوٹ لیے اور ٹیکس کا مطالبہ کیا۔

لوگوں نے شیو دیوسے اس ظالم شہزادے سے نجات دلانے کی دعا کی۔ اُن کی درخواست قبول کرتے ہوئے شیو دیو نے ایک کرامت عطا کی اور گنڑیش دیو نے سفاک شہزادہ سندر کو تین دنوں میں قتل کردیا۔

گنڑیش ہاتھی کے سر اور چار ہاتھوں والے موٹے آدمی کی شکل میں ہے۔ وہ چوہے پر بیٹھتا ہے۔ وہ اِسی درگا پری کا بیٹا ہے۔ جو شیودیو کی بیوی ہے۔ شیو اور ستی کے اِس بیٹے کو معاشرتی معاملات پر طاقت حاصل ہے۔ کسی بینک کار کے پاس چلے جائیں، آپ کو دروازے پر گنڑیش کی تصویر بنی نظر آئے گی۔ آپ کسی بنیے کے پاس چلے جائیں تو اس کی دوکان کی دیوار پر نمایاں جگہ پرگنڑیش کی تصویر موجود ملے گی۔ تمام کاروباری آدمی، اس تصویر کو حفاظت کے نشان کے طور پر رکھتے ہیں۔ خط اس کے نام سے شروع کیے جاتے ہیں۔ حسابات کی کتابوں کے سرورق زعفران کے ساتھ اس کی شبیہہ سے آراستہ کے جاتے ہیں۔

شہزادہ سندر کے قتل ہوجانے پراُ س کا بھائی ہنگول غضب ناک ہوگیا اور اس نے اپنے بھائی کا انتقام لینے کی قسم کھالی۔ وہ نفس کشی، چلہ یا اسی طرح کی روپوشی میں چلا گیا۔ (جس طرح ہزاروں سال بعد ہمارا بالاچ گورگیژ، سخی سرور کے دربار میں چلا گیا۔ دلچسپ ہے کہ بالاچ بھی اپنے بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے شکتی یا مافوق الفطرت طاقتیں لینے زُہد اور خدمت گاری میں رہا۔ اُسے بھی سخی سرور نے ایک مافوق الفطرت طاقت بخشی………… تیز دوڑنے کی طاقت۔ دشمن اُس کا تعاقب کر ہی نہیں سکتا تھا)۔ ہنگول کو بھی برسوں کی زُہد کے بعد ہی بالاچ کی طرح کرامت ملی۔ یہ کہ تین دنیاؤں میں کوئی بھی جاندار اُسے آہنی ہتھیار سے نہیں مار سکتا، اور اُس کی موت صرف ایسی جگہ پر ہوگی جہاں سورج کی شعاع داخل نہ ہوسکے۔
لہٰذا کلا اور کرامتوں سے لدے پھندے اِس ہنگول بادشاہ نے آس پاس کے دوسرے بادشاہوں کو شکست دی، دہشت اور ظلم سے اپنی حکمرانی وسیع کردی۔ اس نے خود کو ہنگول دیو کہلانا شروع کردیا۔ لوگ اس کی حکمرانی میں ظلم اور بربریت سے تھک گئے، بیزار ہوئے۔ انہوں نے پری کے حضور ہنگول بادشاہ سے نجات کے لیے عبادتیں سجائیں۔ بالآخرپری ظاہر ہوئی اور ہنگول کو قتل کردینے کا وعدہ کیا۔ ہنگول فرار ہوکر بلوچستان کے اِس علاقے آیا اور ایک اندھیرے غار میں چلا گیا مگر تعاقب کرتی پری لوہے کے ہتھیار کے بجائے اپنے لکڑی کے ہتھیار ”ترشول“ کے ساتھ آئی اور اُسے قتل کردیا۔ اپنی آخری سانسوں میں ہنگول نے پری سے درخواست کی کہ مستقبل میں یہ جگہ اُس کے نام پہ ”ہنگول تیرتھ“ کے نام سے پکاری جائے۔ جسے پری (دیوی) نے قبول کرلیا۔

میں اِس زیارت گاہ کے لیے ”واحد“ کا صیغہ یونہی استعمال کررہا ہوں۔ بھئی یہاں ایک ٹمپل نہیں، یہاں تو ٹمپلز ہیں۔ اس ایک جگہ پرکئی زیارت گاہیں ہیں۔ ویسے بھی اوپر ہم نے دیکھا کہ ایشیا کی ساری مائتھالوجی، سارے آزمانک ستی اور شیو سے نکلے ہیں۔ کوئی اُن دونوں کا بیٹا ہے، کوئی بھائی۔ تقریباً سب کچھ اسی خاندان سے منسوب ہے۔ چنانچہ گنٹریش کی پوجا یہاں ہوتی ہے، ہنومان اور کالی ماتا کی بھی، تیر کُنڈ، گروگور کھ ناتھ، براہم کُنڈ، رام جروخا بیٹھک، انیل کُنڈ…………۔

ہمارے ذہنوں میں مندر کا جو تصور ہندوستانی فلموں نے ڈال دیا ہے، وہ غلط ہے۔ بلوچستان کے یہ مقامات مذہب کی عبادت گاہیں نہیں ہیں۔ یہ تو بہادروں، درویشوں کے عشق و محبت، جنگ و جدل، اور شوق و شغل کے آسمانی قصوں کی زمینی صورت ہیں۔خواہشات و عزائم کا زمینی آسمانی تصور۔ ہنگلاج سے لے کر نورانی تک اور مست توکلی سے لے کر سسی پنوں تک …………ہنگلاج تو بالخصوص ہندوستانی فلموں والا مصنوعی مندر نہیں ہے۔ اس لیے کہ نہ یہاں کوئی کمرہ گنبد ہے اور نہ کوئی گھنٹی گھڑیال ہے۔ اسے مندر کے بجائے متبرک جگہ کہنا چاہیے ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ کیسی مقدس جگہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔