سرکشی یا استثنیٰ؟ – ٹی بی پی اداریہ

229

سرکشی یا استثنیٰ؟

ٹی بی پی اداریہ

13 اگست کے دن تربت کے علاقے آبسر میں ایف سی اہلکاروں کی ایک گاڑی کو موٹر سائیکل پر نصب ایک ” آئی ای ڈی ” دھماکے سے نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد اہلکار زخمی ہوتے ہیں۔ مگر یہ خبر یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتا۔

مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لیئے حکومتی ادارے بے شمار حربے آزماتے رہے ہیں، مگر ان حربوں میں سب سے وحشتناک عمل ‘اجتماعی سزا’ کا ہوتا ہے۔ اجتماعی سزا کے تحت حکومتی فورسز عوام سے لیکر مزاحمت کاروں کے خاندان کے افراد کو بلا جواز نشانہ بناتے ہیں تاکہ اس سے مزاحمت کاروں پر دباؤ بڑھایا جائے اور عوام میں انکے خلاف بیزاری پیدا کی جائے۔ ایسا کرتے ہوئے حکومتی فورسز کسی قسم کے قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔

13 اگست کے دھماکے کے بعد ایف سی اہلکاروں معمول کے مطابق عوام میں خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے جگہ جگہ چھاپے مارنے لگے۔ عینی شاہدین کے مطابق انہی چھاپوں کے دوران ایف سی اہلکار ایک کجھور کے باغ میں داخل ہوتے ہیں، جہاں انکی نظر ایک نوجوان پر پڑتی ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ کام کررہا ہوتا ہے۔ اس نوجوان کو اسکی والدہ کے سر سے دوپٹہ کھینچ کر باندھا جاتا ہے، تشدد کرتے ہوئے سڑک کنارے لایا جاتا ہے اور پھر والدین کے سامنے ہی ماورائے عدالت اس نوجوان کے سینے میں آٹھ گولیاں پیوست کی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ نوجوان اسی وقت جہاں فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔

اس نوجوان کی شناخت حیات مرزا بلوچ کے نام سے ہوتی ہے، جسکے اوندھے منہ پڑی لاش، اور آہ و پکار کرتی ہوئی ماں کی تصویر پوری قوم کا دل دہلا کے رکھ دیتا ہے۔

حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی میں فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے آخری سال کا طالب علم تھا اور کرونا وباء کی وجہ سے ان دنوں اپنے آبائی گاؤں آیا ہوا تھا، جہاں والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیئے وہ بھی کجھور کی باغ میں محنت مزدوری کر رہا تھا تاکہ گھر پر چار پیسے زیادہ آسکیں۔

حیات بلوچ کی موت بلوچستان میں ایک اور ایسی گمنام المناک کہانی ہوکر رہ جاتی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی اگر بروقت اس خبر کو مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا ثبوت و شواہد کے ساتھ منظر عام پر نہ لاتا۔ حکومتی فورسز کے اس وحشتناک حرکت کے منظر عام پر آنے والے ثبوت اور عوامی ردعل ہی تھا، جن کی وجہ سے آئی جی ایف سی نے دباؤ میں آکر اپنے ایک اہلکار شاہدی اللہ کو قربانی کا بکرا بنا کر پولیس کے حوالے کردیا، حالانکہ یہ بات عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ یہ پورا واقعہ صرف ایک شخص کے ارد گرد گھومتا ہو۔ محض ایک اہلکار کی حوالگی سے شاید ایک پورے ادارے کے دہائیوں کے داغ دامن سے دھل نہ سکیں۔

15 جنوری 2010 کو خضدار کے علاقے گزگی میں ایک نوجوان طالب علم صدام بلوچ کو ایف سی اہلکاروں نے سرِراہ گولیوں سے بھون کر قتل کر ڈالا تھا اور عوامی دباو کے پیش نظر ان دنوں ایک کمیشن کا قیام تک عمل میں لایا گیا تھا، جسکے ممبران نے خضدار شہر کا دورہ کیا اور اپنے تئیں قتل کی تفتیش بھی کی، مگر وہ دن اور آج کا دن، نہ رپورٹ سامنے آسکا نہ صدام بلوچ کے قاتلوں کو سزا مل سکی۔ ایسے بے شمار واقعات اور ہیں جہاں ایف سی اہلکاروں کو قانون سے بالاتر سمجھا گیا ہے۔

کوئٹہ کا علاقے خروٹ آباد میں 2011 کا دلخراش واقعہ ایک اور مثال ہے۔ خروٹ آباد واقعہ سب کی یاداشتوں میں محفوظ ہے کہ کس طرح ایف سی اہلکاروں نے بلااشتعال اور بنا کسی ثبوت کے پانچ چیچن باشندوں کو کیمروں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا، جن میں ایک ایسی حاملہ خاتون بھی شامل تھی، جسکے پیٹ میں سات ماہ کا بچہ پل رہا تھا۔ انکا قاتل بھی یہی ایف سی تھا۔

اس واقعے کے ذمہ دار اہلکاروں کو آج دن تک سزا نہیں ہوئی، واقعے کا واحد شاہد ڈاکٹر باقر شاہ تھا، جنہوں نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انکے پاس خود کش جیکٹ کجا، بندوق کی ایک گولی تک نہ تھی، مگر اسی بیان کی وجہ سے نامعلوم افراد نے خود ڈاکٹر صاحب کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔

حیات بلوچ کو بھی شاید کسی مسلح تنظیم کا رکن یا سہولت کار کہہ کر گلو خلاصی کی جاتی، اگر بروقت ثبوت میڈیا تک نہ پہپنچتے۔ قومی و عالمی میڈیا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے بیشتر واقعات سرد خانے کی نظر ہوجاتے ہیں، ورنہ کسی نوجوان کا اغواء ہونا اور بعد میں اسکا لاش ملنا کسی جنگی جرم سے کم نہیں۔ جب کوئی ثبوت ایف سی کے خلاف میڈیا تک نہیں پہنچ پاتی، تو آئی جی ایف سی مغفرت کیلئے خود تشریف نہیں لاتے بلکہ یہی ایف سی مکمل استثنیٰ کے ساتھ جو چاہے کررہی ہوتی ہے۔ اسکی تازہ مثال یہ ہے کہ جس دن حیات بلوچ کو قتل کیا گیا، اسی دن بلوچستان کے علاقے گچک پنجگور میں بھی ایک فوجی آپریشن شروع کی گئی، اس آپریشن کا ذکر بھی ہمیں میڈیا میں نہیں ملتا، کیونکہ وہاں تک رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے۔ علاقائی ذرائع کے مطابق اس آپریشن میں اب تک یہی ایف سی پچاس کے قریب مرد و زن اور بچے ٹھا کرلے گئی ہے، جو تاحال لاپتہ ہیں۔

بلوچستان میں حکومتی فورسز کی سرکشی کی بات کی جائے تو یہ اس استثنیٰ کا نتیجہ ہے، جو دہائیوں سے انہیں حاصل ہے، جس کے تحت وہ بلوچستان میں کچھ بھی کریں، ان سے بازگشت کرنے والا کوئی ملکی یا عالمی ادارہ نہیں۔ وہ بندوق بردار جو طالبعلموں کو لاپتہ کرکے، تشدد کا نشانہ بناکر، گولی مار کر روڈ کنارے پھینک دیتے ہیں، ان کیلئے حیات بلوچ کی طرح وہیں پکڑ کر سرعام گولی ماردینا زیادہ مختلف کام نہیں ہے۔

حکومتی فورسز حیات بلوچ کے قتل کو صرف ایک اہلکار کی غلطی یا سرکشی کا رنگ دینے کی سر توڑ کوششوں میں لگے ہیں، مگر بلوچستان کا ہر فرد اب اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ ایک اہلکار کی سرکشی نہیں بلکہ تمام اہلکاروں کا قانون سے مستثنٰی ہونے کا نتیجہ ہے اور اسکے پیچھے دہائیوں سے جاری نوآبادیاتی ذہنیت کارفرما ہے۔ اسی تاریخی حقیقت کا درست ادراک رکھتے ہوئے ہی محض ایک اہلکار کی گرفتاری کو ناکافی سمجھتے ہوئے، بلوچ طلبہ نے آج 22 اگست کو ملک بھر میں اور بیرون ممالک مقیم سیاسی کارکنوں نے بھی احتجاجی سلسلوں کا اعلان کیا ہے، جن کا مطالبہ بلوچستان سے ایف سی کا انخلاء ہے۔ بی این پی مینگل کے رہنما اختر مینگل نے بھی ایف سی کی جانب سے ایک اہلکار کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے، مطالبہ کیا ہے کہ اس ذہنیت کو ختم کیا جائے کہ حکومتی فورسز کو استثنیٰ حاصل ہے۔