سرخ جوڑا – شاد بلوچ

604

سرخ جوڑا

شاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک تاریک کمرے میں بند وہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی کہ آخر اسے بھی یہ دن دیکھنا پڑیگا۔ رو ررو کر اس کے گال لال اور آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ وہ اب بھی کچھ مثبت ہونے کا امکان لیئے دل کو دلاسہ دے رہی تھی۔ تانیہ نے ساری زندگی دوسروں کا خیال رکھ کے گذاری تھی۔ کبھی اپنا خیال ہی نہیں تھا اسے۔ اب وہ کرب و اذیت میں مبتلا تھی، اس معاشرے کی وجہ سے جس نے اس کے قدم زنجیروں کے نظر کیے تھے اور اس گھر کے ہر فرد کے لیئے جن کے لیئے اس نے آج تک کوئی لفظ برداشت تک نہیں کیا۔

تاریک کمرے میں ایک چھوٹی سی روشنی ایک لکیر کی مانند روشن دان سے ہوتے ہوئے تانیہ کے پیروں کو چھو رہی تھی۔ وہ اتنی لاچار اور کمزور ہوچکی تھی کہ اٹھ کر خود پانی تک نہیں پی سکتی تھی۔ اسی مدہم روشنی میں تانیہ اٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مٹکے تک پہنچ گئی۔ ایک گلاس غٹاغٹ سے منہ میں انڈیل دی اور دوسری گلاس پیتے ہوئے ہچکیاں آگئیں اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے ہچکیاں لیکر زمین پر جاگری۔ شاید تانیہ دو دن سے اسی کمرے میں بھوکی پیاسی بند پڑی تھی۔ تانیہ کے کپڑے بازوؤں سے پھٹے ہوئے اور بال ایسے بکھرے کے ابھی دس بارہ بندوں سے لڑکر آئی ہو. ہاتھوں پر جگہ جگہ خون کے دھبے نظر آرہے تھے، سرخ ثقافتی جوڑا جو عموماً شادی پر پہنتے ہیں تانیہ کے سفید جسم پر ایسے جچ رہا تھا جیسے کوئی رانی اپنے شادی پر پہنتی ہے لیکن کچھ گھنٹے قبل اس لباس کا ہر حصہ سفید چھینٹوں کا گواہ بن چکاتھا۔ ہر حصے پر سفید رنگ ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے کوئی آرٹ دیواروں پر کی جاتی ہے۔

تانیہ نے ہچکیاں لینی بند کی تھیں۔ اور اب اسے تھکن نیند کی آغوش میں سلانا چاہتی تھی لیکن درد، غصہ اور عزت نے اسے کتنے گھنٹوں رلایاکہ اسے پتہ تک نہیں چلا اور آخر کار نیند کی بستی میں گم ہوگئی۔

”نواب صاحب! لڑکے کا کچھ پتہ چلا کہ نہیں؟“ تانیہ کے والد امام دین نے پوچھا۔ ”امام! اب تک تو نہیں ملا لیکن آخر کب تک نظر نہیں آئیگا۔ اسے میرے بندے ڈھونڈ نکالیں گے۔“ مونچھیں تاؤ دیتے ہوئے نواب درجان نے کہا جو کہ کرسی پر بیٹھے تھے اور انکے عقب میں امام دین زمین پر بیٹھا تھا جنکی آنکھیں نیچے زمین پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ لرزتے لبوں سے امام دین نے پوچھا ”نواب صاحب میری بچی کہاں ہے اور اب وہ کیسی ہے؟“ ”تمہاری بچی بلکل ٹھیک ہے لیکن اسے سخت سزا دی جارہی ہے، اس نے ہمارے اچھے بزگر امام دین کی عزت مٹی میں ملا دی ہے اور اسے ہر اس حرکت کا جواب دینا ہوگا جس سے تمہاری عزت کو ٹھیس پہنچا ہے۔ اب تم فکر نہیں کرو تانیہ میری بھی بچی ہے اور میرے محل میں اسے اب تمام زندگی رکھیل بن کر رہنا پڑیگا۔“ کچھ دیر خاموشی چھا گئی اور پھر نواب بولنے لگے۔ ”تمہاری بیٹی تانیہ نے سلمان کے ساتھ بھاگنے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کرلیا؟“ ”نواب صاحب اب کیا بتاؤں کہ سلمان اسے پسند کیسے آگئی؟ سلمان نے رشتہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہمارے گھر کی حالت اور ہماری حیثیت دیکھ کر سلمان کے والدین نے اسے منع کیا۔ وہ ہرگز سلمان کا رشتہ ہمارے تانیہ سے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سلمان ایک خوبصورت نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ زراعت میں ایک افسر بھی ہے۔ وہ پچھلے دو سالوں سے ہماری کھیتی باڑی دیکھنے، علاقائی و ماحولیاتی تبدیلی اور اپنے شعبے میں تحقیق کے حوالے سے آتے رہتے تھے۔ پہلی دفعہ وہ آپ سے اجازت مانگ کر ہمارے پاس آئے تو ہماری تانیہ نے اسے پانی لاکر دی اور چائے وغیرہ کا پوچھا۔ اس وقت سے ایک ہی ملاقات سے وہ ہماری تانیہ پر فدا ہوگیا۔ لیکن اس چیز کا اندازہ نہ تانیہ کی ماں شاہ بانو کو تھا اور نہ ہی اس چیز پر میں نے غور کیا کبھی ۔ تانیہ ہماری بچی بھی نادان اور نا سمجھ ہے۔ اسے ان معاملات کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ ان دونوں کے درمیان نظروں ہی نظروں میں گفتگو ہوتی رہی، وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ اور بات یہاں تک آپہنچی کہ ایک دفعہ سلمان اپنے ابو کے ساتھ آئے اور وہ ہمارے گھر چائے پی کر چلے گئے لیکن ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں ہوا۔ سلمان اپنے گھر والوں کو راضی نہیں کرسکا لیکن تانیہ کے دل پر اس کی محبت کا اثر اور گہرا ہوا “امام دین اب بالکل نڈھال ہوچکا تھا اور اسکی آواز مدھم ہوگئی تھی۔ وہ اپنے الفاظ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ کچھ دیر درد بےبسی اور غیرت کے آنسوؤں سے لڑنے کے بعد بولنا شروع کیا۔

”ایک دن تانیہ گھر پر اکیلی تھی، میں بازار گیا ہوا تھا اور شاہ بانو شاید مبارک کے ہاں انکی اہلیہ کی تیمارداری کے لیئے گئی ہوئی تھی جب سلمان آیا تھا اور موقع پاکر اس نے تانیہ کو اپنی دل کی بات بتادیا تھا۔ اور تانیہ بھی راضی ہوچکی تھی، سلمان اس اسرار پر اس دن تانیہ سے رخصت ہوا تھا کہ کچھ دن بعد وہ آکر تانیہ کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جائیگا۔ جب وہ کچھ دن بعد لوٹ آئے تو اس نے مجھے گھر میں پاکر خوش ہوئے اور مجھ سے اکیلے میں بات کرنے کی ضد کی۔ ہم دونوں کھیتوں کے درمیان سے گزررہے تھے کہ سلمان نے کہا، چچا امام آپ سے مجھے کچھ باتیں کرنی تھی۔ میں نے وہی بیٹھ کر اس کی باتیں سننے کا فیصلہ کیا۔ سلمان نے مجھ سے اپنے اور تانیہ کی رشتے کی بات کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ وہ اپنے والدین سے بات کرچکے ہیں لیکن وہ اس لئے منع کرچکے تھے کہ امام دین کی حیثیت ایک بزگر کی ہے اور ہماری حیثیت اعلی گھر، بڑی گاڑی اور اونچے خاندان کی ہے۔ میں نے اسے وہیں پر بتادیا کہ بھئی سلمان صاحب آپ کے والدین آپکی بھلائی کے لئے کہتے ہیں اور ہم آپکے برابر کبھی بھی نہیں ہوسکتے۔ ہمارے یہاں تمام بزگر وں کے شادیاں طے کرنے والے ہمارے نواب صاحب ہیں ۔ جب سلمان نے نواب کے فیصلے کاسنا تو وہ بے حد غصے میں آگیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ نواب ہوتا کون ہے آپ لوگوں کی بیٹیوں اور بیٹوں کے شادی کرانے والا۔ وہ اس قدر بڑا ہے کہ آپ لوگوں کے ننگ و ناموس کا فیصلہ کریں؟ کیا آپ لوگون کو یہ حق حاصل نہیں؟ تو میں نے اس سے کہا جناب نواب ہی ہمارا مسیحا اور سہارا ہے۔ اس کے مرضی کے بغیر ہمارے ہاں پتے تک نہیں ہلتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نواب زندگیوں کا فیصلہ کریں اور جس کو چاہے جیسے بھی کڈھے میں گرادے۔ کیا آپ خوش نہیں ہو کہ تانیہ کی میرے جیسے ایک افسر سے شادی ہو اور انکی زندگی کی تمام تر خوشیاں اسے ملیں؟ نہیں جناب تانیہ نواب کے فیصلے کے بنا کوئی بھی قدم نہیں اٹھائیگی۔ جس سے ہماری غیرت، ہماری عزت اور ہماری شان پر کوئی لکیر کھینچ کر ہمیں بے غیرت تصور کرے۔ چچا تانیہ بھی راضی ہے اور میرے ساتھ زندگی کے ہررنگ میں شامل ہوناچاہتی ہے۔ سلمان…….. آپ تانیہ سے کب ملے؟ اور کیسے ؟ تم دونوں اکیلے میں ایک دوسرے سے کیسے مل سکتے ہو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ تم نے ہماری شان کے خلاف ہوکر ہماری بیٹی سے اکیلے میں ملے ہو۔ تم نے نواب صاحب کے تمام قوانیں کی پامالی کی ہے۔ تم نے ایک گناہ کیاہے اور اب میں تم سے یہاں بات نہیں کرسکتا اب نواب صاحب کے کوٹھی پر ملاقات ہوگی۔ اور میں اٹھ کر سیدھا گھر چلا آیا۔

رات میں نے شاہ بانو کو پورا قصہ بتایااور میں نے تانیہ کی پٹائی کی اور اسے کمرے میں بند کرکے اسے اکیلا چھوڑدیا۔ صبح مجھے نئی بیج لانا تھا تو میں شہر چلاگیااور اتفاقا شاہ بانو کو مبارک بھائی کے ہاں جانا پڑا، مبارک کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ 11 بجے کے وقت سلمان آپہنچا تھا۔ اس نے گھر میں کسی کو نہ دیکھ کر آواز دی تھی، آواز سن کر تانیہ نے کمرے کے دروازے کو کھٹکھٹایا تھا اورپوری زور سے چیخی تھی جس کی آواز تقریباً کھیتوں میں کام کرنے والے جاوید بھائی نے سنا تھا لیکن اسے یہ آواز محض ایک خیال ہی لگاتھا۔ سلمان نے دروازے کے کنڈی کو توڑ کر تانیہ کو باہر لایا تھا، تانیہ نے تمام معاملہ سنایا اور دونوں وہی سے سلمان کے گاڈی میں شہر چلے گئے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو شاہ بانو گھر کے صحن میں بیٹھی رو رہی تھی۔ میں اسکے قریب پہنچا ”شبوکیا ہوا؟“ شابانو بلکل بے حس ہوچکی تھی۔ اس نے صرف یہی کہا کہ تانیہ گھر میں نہیں ہے۔ میں بوجھل قدموں کے ساتھ لڑکھڑا کر اندر گیا تو وہاں کنڈی دروازے سے ٹوٹی ہوئے نیچے گری تھی اور دوسرے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو صندوق کھلا پڑا تھا اور تانیہ کے شادی کا سرخ جوڑا غائب تھا۔

جب میں گھر سے باہر نکل کر آپ کی طرف آرہا تھا تو راستے میں مجھے جاوید ملا اس نے بتایا کہ سلمان کی گاڈی میرے گھر کے باہر کھڑی تھی اور اس نے ایک زور کی چیخ بھی سنی تھی۔ جب میں یہاں پہنچا تو چھوٹے مالک صحن میں بیٹھاہواتھا۔ میں نے چھوٹے مالک کو پورا واقعہ سنایا۔ تو اس نے بتایا کہ نواب صاحب سورہے ہیں۔ چھوٹے مالک نے کہا ”اگر تمہارے پاس سلمان کا کوئی اتہ پتہ ہے تو مجھے بتاؤ میں بندے بھیج کر اسے یہاں لے آتا ہوں۔ میں نے ایک دم سے شہر میں سلمان کے گھر کا پتہ بتادیا تھا جہاں سلمان اکیلے رہ رہا تھا۔ آج ہی مجھے آپ کے ہاں حاضر ہونے کا کہا گیا اور یہ بھی بتادیا گیا کہ تانیہ کو نواب صاحب کے کوٹھی پررات کو لایا گیا تھا اور سلمان اب تک غائب ہے۔

”سلمان کے گھر میں صرف تانیہ تھی۔ اور جب سے تانیہ کو لایا گیا ہے وہ کچھ بول ہی نہیں رہی ہے۔ سلمان کا کسی کو پتہ نہیں انکے والدیں کے گھر بھی ہمارے بندے گئے تھے لیکن وہ وہاں بھی دو مہینوں سے جانا چھوڑدیا ہے۔ اب تم فکر نہیں کرو تانیہ اور سلمان کو سزا دیا جائیگا۔ سلمان نے ہمارے شان میں گستاخی کی ہے۔ اس نے سرخ جوڑے کی عزت تک نہیں کی ہے۔ سرخ جوڑے پر لگے سفید داغ صرف اسکے اور تانیہ کے سرخ خون ہی مٹاسکتے ہیں۔ اس جوڑے کی عزت عزت دار ہی جانتے ہیں۔“ نواب صاحب کرسی سے اٹھ کر بڑے کڑک لہجے میں کہہ رہاتھا۔

دوسرے دن شاہ بانو صحن میں بیٹھی ہاتھوں سے پلو تھامے اور آنکھوں کے ساتھ لگاکر مسلسل رہ رہی تھی۔ ”شاہ بانو اٹھو اب جاؤ تانیہ کو کوٹھی میں کھانا دیکر آؤ وہ دو دنوں سے بھوکی ہے۔“ شابانو اٹھ گئی اور سسکیوں کے ساتھ کھانا لیکر کوٹھی کی جانب روانہ ہوئی۔ شام کا وقت تھا،آسمان پر سرخ پیلے دوپٹے کی طرح روشنی عیاں تھی۔ درختوں کے سائے اس روشنی میں جھوم رہے تھے۔ ہلکی ہلکی بادل آسمان پر مختلف عکس بکھیر رہی تھی اور سردی کی پہلی سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ جب شاہ بانو کوٹھی کے بڑے دروازے سے اندر آئی۔ کوٹھی کے اندر آتے ہی دائیں اور بائیں جانب دیوار کے ساتھ بڑے تنوں والے درخت لگے تھے۔ اور بہت سے جھاڑیاں بھی انکے نیچے پڑے تھے۔ اور دور کوٹھی کے بالکنی میں لالٹین جل رہی تھی۔ جس کی مدہم روشنی سے صحن نظر تو آرہی تھی لیکن صاف نہیں۔ شاہ بانو اندرآتے ہی جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کی۔ اس نے دیکھا کہ لالٹین کے مدہم روشنی میں کمرے سے ایک شخص نمودار ہوااوراس کے ہاتھ قمیض کے نیچے ہل رہے تھے جیسے کوئی چیز باندھ رہا ہو۔ وہ سیدھے گیٹ کی جانب مڑا شاہ بانو کے قریب سے گزر گیا لیکن شاہ بانو پر اس کی نظرنہیں پڑی۔ شاہ بانو دوڑتے ہوئے کمرے میں گھس گئی ۔ تانیہ کی حالت دیکھ کر وہ بدحواس ہوگئی اورجلدی سے تانیہ کے سر کو اٹھا کر اپنے گود میں رکھ دیا تانیہ کے بال بکھرے، سرخ جوڑے کے شلوار پر تازہ سفید بوندیں، سینے سے اوپر قمیض، دوپٹے سے تانیہ کا منہ بندھا ہوا تھا۔ شاہ بانو نے جلدی سے دوپٹہ کھولا، قمیض نیچے کی اور شلوار کھینچ کر اوپر ناف تک لایا ۔ تانیہ کی منہ سے بےاختیار نکلا ”ماں میرا سرخ جوڑا چھوٹے مالک نے۔۔۔۔۔ اور تانیہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی لیکن شاہ بانو کے چیخ نے کوٹھی کی چھت ہلادی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔