روشنی کا سفر – ستار سیلانی

706

روشنی کا سفر

تحریر- ستار سیلانی

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے بڑے اور عظیم دانشوروں کا قول ہیکہ “میں اس انسان کو انسان میں کیسے شمار کروں جو خواب تک نہیں دیکھتا ہے۔” کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان خواب دیکھتا ہے تو اسکے تعبیر کی جہد کرتا ہے اور تعبیر سے مستقبل کے راستے تلاش کرتا ہے۔ روشنی اپنی نورانی سفر کے دوران روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔

گذشتہ دن ہم غریباں، تنہائی اور ہم سنگیت سننے میں مصروف تھے کہ “بولان ادبی دیوان مچھ” کے سیکریٹری جنرل منیر غمخوار کے فون کی گھنٹی نے ہمیں خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا، حال واحوال کے بعد کہنے لگے کہ کل صبح 9:30 بجے چند نوجوان “عنقا لائیبریری” مچھ کے غیر فعال حیثیت کے بارے میں پریشان ہیں، چاہتے ہیں، کہ عنقا لائبریری کو فعال کیا جائے؟ اس خبر نے ہمیں جنجھوڑ ڈالا، بلکہ شادی مرگ کی کیفیت طاری کردی۔

لائبریری کا وجود، کتاب دوستی، کتاب بینی از خود روشنی کا سفر ہے۔ پھر روشنی کا سفر اپنی جواں عمری کے خواہشات کو ترک کرکے اگر انیس الرحمان، محمد دین اور خادم کرد کی شکل میں ہمیں جگانے نکلےہیں۔ تو یہ بڑی بات ہے۔ اپنی محفل سنگیت سے نکل کر ہم نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا، کہ نوجواں نسل مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں، مایوسی کی اندھیری رات چھٹنے والی ہے۔

مچھ میں لائبریری اور پارک نسلوں کی خواب تھی۔ 60ء کی دہائی میں مچھ میں میر صالح محمد لہڑی جو کہ یقینناً علم دوست شخصیت اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے تھے، محمد حسین عنقا کے مشاورت سے ریلویز تھانے مچھ کے سامنے ایک پارک بنادیا، جو عوامی و سرکاری عدم توجہی کے باعث ویران ہوتے ہوتے ختم ہوا، لیکن روشنی نے کہیں نہ کہیں سست رفتاری کے باعث اپنا سفر جاری رکھا۔ 1985ء میں ہم نے پارک و لائبریری حاصل کیا اور ان کا نام کرن بھی کیا۔ لیکن سرکاری سرپرستی و تعاون نہ ہونے کی وجہ سے پارک جنگل اور لائبریری روشنی وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے اندھیروں کے نظر ہوتا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ آسان ہوگا کہ قریب المرگ ہونے لگا.

اسی اندھیرے میں اچانک تین نوجوانوں نے ہمیں جگانے عنقا لائبریری اور عزیز کرد پارک کو اپڈیٹ کرنے کا خیال لیکر مچھ پہنچے، اور “بولان ادبی دیوان مچھ” کے گدان پہنچے، دیوان کے سنگتوں نے آنے والے روشنی کے چراغوں کے اعزاز میں “عید ملن محفل مشاعرہ رکھا اور لائبریری کو کسطرح فعال کیا جائے۔

گو کہ تینوں نوجواں میری طرح شاعر تو نہ تھے، لیکن ان میں سے محمد دین رند نے فیض احمد فیض کے چند اشعار پڑھے، انیس الرحمان نے کتاب دوستی ، خصوصاً کتاب میلہ منعقد کرنے کی تجویز دی کہ کسطرح پڑھے لکھے طبقے کو کتاب کی جانب راغب کیا جائے، مچھ کے نوجواں خادم کرد نے کتاب میلہ و کتاب دوستی سے متعلق تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے، تاکہ ہم صاحب حیثیت شہریوں سے ملکر اس مشکل مرحلے کو کامیاب بناسکیں۔

جب کسی قوم کے نوجواں جاگ اُٹھیں، بلکہ دوسرے نوجوانوں کو جگانے عید کی چھٹیوں کو جواں عمری کی خر مستیوں، پکنک وغیرہ کو چھوڑ چھاڑ کے علمی و فکری علم کی روشنی پھیلانے کے کام میں جڑ جائیں، مشنری انداز میں تبلیغ کریں یہ بڑی بات ہے. یہ سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں؟

تینوں نوجواں علم کے چراغ لگے، باتوں میں عالمانہ انداز قائدانا صلاحیت، علمی خزانے لیئے گھوم رہے ہیں، جس قوم کے نوجواں اس طرح بالغ نظری کا مظاہرہ کریں، ہماری خوش قسمتی کہ شام کو تینوں روشن چراغ ہمارے “گوشہ ادب” تشریف لائے۔

ہم نے ایک بات جو محسوس کی وہ یہ تھی کہ بقول شاعر عشق ہے، ” سوز جگر اور علم ہے سوز دماغ” ایک مشکل ہے کہ تو آتا نہیں اپنا سراغ! ہم شعر کے اوپری بند سے نکل کر دوسرے حصے میں الجھے ہوئے ہیں، کتاب سے بڑا استاد کوئی اور نہیں؟ علم کے آدمی کو انسان بناتا ہے، وہی انسان کائنات کو تسخیر کرسکتا ہے،اگر ساتھی علم ہو۔

سقراط، افلاطون، ارسطو، گرو رجنیش بھی انہی نوجوانوں کے ماضی کا تسلسل ہیں، مجھے ان نوجوانوں کا مستقبل روشن اور یہ کل کے دانشور ہونگے، نہ جانے تب ہم ہونگے یا نہیں؟ لیکن یہ وقت کو اپنا گھوڑا بنا کر زندگی کا تلخ سفر طے کریں گے۔ کتاب سے شوق ایک دن کتاب سے عشق کا درجہ حاصل کرینگے۔ خوشی اور امید کی کرن ہیں، یہ نوجواں! اب ہم جیسے درویش سکون سے مرسکتے ہیں۔ جسطرح یہ چراغ روشن ہیں۔ اسی طرح یہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، چراغ سے چراغ جلاتے جائینگے۔

آج کے نوجواں نسل جسطرح دولت کمانے راتوں رات امیر بننے کے دوڑ میں لگے ہیں۔ اسطرح اس گئے گزرے دور کرپشن میں جسطرح دولت کمانے سمیٹنے میں لگے ہیں، جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ وہاں اس گھپ اندھیرے میں جسطرح قدرت نے ہمیں مایوسی سے بچاتے ہوئے تین چراغ ہم تک پہنچائے، اب ہم سکون سے مرسکتے ہیں کہ قدرت نے جو چراغ روشن کیے ہیں وہ دیئے سے دیئے جلاتے اپنا سفر جاری رکھیں گے، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔