خون سے لت پت لاش کی کہانی – فتح بلوچ

940

خون سے لت پت لاش کی کہانی

تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

17 اگست یعنی کل سوشل میڈیا پر خون سے لت پت ایک لاش کی تصویر گردش کررہی تھی، جس کے سراہنے ایک بوڑھی ماں اور والد ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف خدا سے انصاف کے لیئے فریاد کررہے تھے، یہ تصویر چند منٹوں میں وائرل ہوگئی۔

یہ تصویر 13 اگست 2020 کو تربت کے علاقہ آبسر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے حیات بلوچ کا تھا۔ تیرہ اگست جمعرات کو تقریباً ساڑھے 11 بجے کے قریب جس باغیچے میں حیات کام کر رہا تھا اس کے قریب سڑک سے فرنٹیئر کور کی گاڑی گذر رہی تھی، جب اچانک دھماکہ ہوا۔‘

دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس آئے اور انہوں نے حیات بلوچ کے والد کے بقول ’حیات بلوچ کو تھپڑ مارے، اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے اور روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں ماری دیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا”

اس واقعہ کے بعد بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بلوچ عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں اور وہ حیات بلوچ کے قتل میں ملوث ایف سی اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

حیات بلوچ کے قتل کے دوسرے روز ڈی پی او تربت نے اپنے دفتر میں ایک پریس کانفرنس کیا، جس میں بائیں طرف حاصل نامی شخص اور دائیں طرف حیات کا بھائی مراد براجماں تھا۔

اس پریس کانفرنس میں حیات بلوچ کا بھائی خاموش تھا، تاہم حاصل نامی شخص نے واقعے کے بعد تربت پولیس کی تعریف کی کہ انہوں نے توقع سے زیادہ ہماری مدد کرکے، اس ایف سی اہلکار کو حراست میں لیا ہے، جس نے حیات بلوچ پر گولیاں چلائی تھیں۔

جبکہ سوشل میڈیا میں بلوچ نوجوان اس حاصل نامی شخص کو ڈرگ مافیا کا کارندہ کہہ رہے تھے، یہ شخص فیملی کو پریشر دینے کے لیے سرگرم ہوچکا ہے۔

یاد رہے حیات بلوچ کی والد کی مدعیت میں ایک نامعلوم ایف سی اہلکار پر مقدعہ درج کیا گیا ہے۔ اب یہ نامعلوم ایف سی اہلکار پر مقدمہ درج کرنے والی بات پر گرفتار ایف سی اہلکار کی کہانی کا ڈرامے کا پول کھل گیا ہے۔

ہم 17 اگست کی صبح اس تصویر کی بات کرتے ہیں جو شام تک وائرل ہوئی اور اس کے بعد سوشل میڈیا میں نسیم مرزا نامی شخص نے پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی شہید حیات بلوچ کی اس تصویر کو مذید شئیر نہیں کیا جائے، جس میں میرے والدہ اور والد لاش کے سراہنے بیٹھ کر فریاد کررہے ہیں۔

اس پوسٹ کے بعد میں نے اپنے زرائع سے معلوم کیا تو مجھے معلوم ہوا یہ تصویر سب سے پہلے فیملی کی طرف سے جاری ہوا، جس وقت ایف سی اہلکاروں نے والدین کے سامنے حیات بلوچ کے جسم پر 8 گولیاں پیوست کیے تو وہاں آس پاس کے کسی فیملی ممبر نے منظر کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا جو 4 دن بعد یعنی 17 اگست کو شائع ہوتے ہی وائرل ہوئی۔

اس تصویر کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ہی دن میں 20ہزار سے زائد لوگوں نے اس تصویر کو شئیر کرتے ہوئے ہمدردی کا اظہار اور قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

بحیثیت صحافی میں نے اس معاملے کو مزید جاننے کے لیے اپنے ذرائع سے ان تمام معاملات کو جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ایف سی کی طرف سے فیملی پر بہت زیادہ پریشر ہے کہ واقعے کو رفع دفع کیا جائے اور مذید سوشل میڈیا پر اس واقعے کو لے کر احتجاج نہیں کیا جائے، جس سے ‘ملکی اداروں’ کی مذید بد نامی ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مملکت اللہ داد کس بدنامی کا سوچ رہا ہے؟ اس ملک میں بلوچ، پشتون، سندھی اور ہزارہ کا خون اتنا بہہ چکا ہے کہ اب یہ ملک کبھی نیک نام نہیں ہوسکتا ہے۔

البتہ حیات بلوچ کے فیملی کو پریشان کرنے کے بجائے انکو انصاف فراہم کیا جائے تو ملک کی مفاد میں بہتر ہوسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔