بلوچستان کے علاقے تربت میں پاکستانی فورسز اہلکار کے ہاتھوں قتل کیخلاف بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی “حیات بلوچ کو انصاف دوں” کا ٹرینڈ چلایا جارہا ہے۔
احتجاجی مظاہروں میں طلباء، سول سوسائٹی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد حصہ لے رہے ہیں۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع پنجگور، مستونگ، سوراب اور ڈیرہ غازی خان تونسہ شریف، گلگت بلتستان اور وزیرستان کے شہر میر علی میں مظاہرے منعقد کیئے جاچکے ہیں۔
پنجگور یکجہتی کمیٹی کی جانب سے حیات بلوچ کے قتل کیخلاف ریلی ماڈل چوک سے شروع ہوکر مقامی اخبار کے دفتر کے باہر جلسہ کی شکل اختیار کرگیا۔ ریلی میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ احتجاجی جلسہ کے آغاز سے قبل حیات بلوچ کے لیے دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حیات بلوچ ایک پرامن بے گناہ طالب علم تھا، ایف سی کے ہاتھوں اس کے ناحق قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ حیات بلوچ کا قصور یہ تھا کہ وہ بلوچ اور قلم کتاب سے محبت کرتا تھا۔ حیات بلوچ کی طرح ایسے کئی بلوچ نوجوان ہونگے جو ناحق قتل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل دراصل امن پسند لوگوں کا قتل ہے حکومت اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ طریقے سے تفتیش کرکے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے اور ایسے دل خراش اور افسوناک واقعات کی روک تھام کرے تاکہ آئندہ کسی دوسرے ماں باپ کے آرمانوں کا دیا نہ بجھ سکے۔
اسی طرح برمش یکجہتی کمیٹی سوراب کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی کرکٹ گراونڈ سوراب سے شروع ہوکر مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے واپس کرکٹ گراونڈ سوراب پے اختتام پزیر ہوا۔ اس موقع پر کارکنان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید حیات بلوچ کا قتل ایک حادثہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سوچ اور غصہ ہے جو بلوچوں پر پچھلے ستر سالوں اتارا جارہا ہے۔
دریں اثناء برمش یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام حیات بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف کلمہ چوک تونسہ شریف پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ذوالقعار بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل عام ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، حیات بلوچ کا قتل پہلا واقعہ نہیں بلکہ جب سے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا گیا اس وقت سے بلوچوں کا قتل عام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کیئے جاچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے محافظ نہیں چاہیے جو بلوچوں کا قتل عام کریں، ریاستی ادارے بندوق کی نوک پر بلوچوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد سے دستبردار نہیں کراسکتے، بلوچوں کو پاکستان کا باعزت شہری تسلیم کرکے انہیں ان کے حقوق دیے جائیں اور طاقت کے استعمال سے آپ نفرتیں تو پیدا کرسکتے ہیں مگر محبت کی شمع نہیں جلاسکتے۔