حیات بلوچ قتل کے خلاف جرمنی و نیدرلینڈ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا – بی این ایم

250

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ حیات بلوچ کا فوج کے ہاتھوں قتل کے خلاف جرمنی کے شہر ہنوفر اور نیدرلینڈکے دارالحکومت ایمسٹرڈم میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں پارٹی کارکنوں نے کثیر تعداد میں شریک تھے۔مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر تھے اورانہوں پاکستانی درندگی و حیوانیت کے خلاف اور آزادبلوچستان کے نعرے بلند کئے اور پمفلٹ تقسیم کئے۔

بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج بلوچ شعور کے ہتھیار سے لیس ہے،آج بلوچ قوم کا کوئی فرزند دنیا کے جس کونے میں ہو وہ قومی اجتماعی درد سے جڑا ہے۔ وہ بے خبر اور لاتعلق نہیں رہ سکتاہے۔ حیات بلوچ کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں ہے کہ ایک احتجاج کرکے ہماری فرض پوری ہوجاتی ہے بلکہ بلوچ نسل کشی 1948سے شروع ہوکر آج تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا حیات بلوچ کا کسی سیاسی و مزاحمتی تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔ محض ایک اسٹوڈنٹ تھا۔ ثنا بلوچ خاران میں لائبریری بنا رہا تھا۔ انہیں اٹھاکر لاپتہ کر دیا گیا اور حیات بلوچ کو والدین کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا۔غرض بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

جرمنی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جبار بلوچ نے کہا آج ہم یہاں بلوچ نسل کشی کے خلاف انصاف اور آزادی کے لئے یکجاہ ہیں۔ پاکستان ہمارے معصوم بچوں، نہتے لوگوں اور طلبا کو قتل کررہا ہے۔ پاکستان خطرناک ہتھیار اور گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کررہاہے۔ ہمارے گھروں کو جلارہاہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں جیسا کہ جرمنی کے لوگ ہزاروں سال پہلے تھے۔بلوچستان میں نہ زندگی کی بنیادی سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی سکول و کالج۔ تعلیمی ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے طلباسینکڑوں کلومیٹر دور کوئٹہ اور کراچی چلے جاتے ہیں۔حالیہ کروناوائرس کے لاک ڈاؤن سے حیات بلوچ اپنے گھر آیا تھا اور اپنے کھیتوں میں والدین کا ہاتھ بٹھا رہا تھا کہ پاکستانی فوج نے ہاتھ پاؤں باندھ کر والدین کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ آج ہم مہذب دنیا سے اپیل کرتے ہیں بلوچستان کی آزادی کے لئے آواز اٹھائیں۔

جبار بلوچ نے کہا چین بلوچستان میں پاکستان کے ساتھ مل کرہمارا ستحصال کر رہی ہے۔ وہ ہمارے وسائل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے بہت سے اسلامی بنیاد پرست جنونیوں کو تربیت کرکے بلوچستان میں پھیلایا ہے۔ وہ ہمارے لوگوں کو، ہمارے طلبا کو قتل کررہے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ذاکرمجیدبلوچ سمیت ہزاروں لوگ پاکستانی ٹارچرسیلوں میں بند ہیں۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بانک درین بلوچ نے کہا پاکستان نے اپنے نہام نہاد جشن آزادی سے ایک دن قبل 13اگست کو ایک پاکستانی فوجی کے ذریعے حیات بلوچ کو گھسیٹ کرسڑک پر والدین کے سامنے آٹھ گولیاں مارکرقتل کردیا۔ یہ پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کا صرف ایک مثال ہے۔ پاکستانی فورسز بیس سالوں بلوچ طلبا، وکلا، بچے، بوڑھے اور خواتین کو قتل کر رہے ہیں۔ ہم انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں بلوچ نسل کشی کے بارے میں خاموشی توڑ کر آواز اٹھائیں کیونکہ حیات بلوچ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں کوئی روز ایسا نہیں گزرتا کہ پاکستان جنگی جرائم کا مرتکب نہ ہوتا ہو۔

ندیم سلیم بلوچ نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے حیات بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ بلوچستان کبھی بھی پاکستان حصہ نہیں رہا ہے بلکہ ہم پر جبری قبضہ کیا گیا ہے اور اب پاکستان قومی آزادی و انصاف کے لئے آواز اٹھانے پر بلوچ نوجوانوں کو قتل کر رہا ہے۔

سنگت شیراز بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے حیات بلوچ کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔ پنجگور میں آپریشن کے دوران خواتین و بچوں کو اٹھایا گیا ہے۔ پاکستان مسلسل ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شہید کر رہاہے۔ بلوچستان میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکاہے۔ پاکستان جملہ جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جاسم بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ سمیت کوئی بھی بلوچ خواہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو،آج بلوچستان میں محفوظ نہیں ہے کیونکہ پاکستان بلاتخصیص بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔

زاہد بلوچ نے کہا پاکستان کی بربریت و حیوانیت کے خلاف آج آواز نہیں اٹھائیں گے تو یہ سلسلہ ملک ناز، برمش، کلثوم اور حیات بلوچ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہر بلوچ تک یہ آگ پہنچ جائے گا۔

آخر میں جرمنی کے مقامی سماجی کارکن نینسی نے بی این ایم کا پمفلٹ پڑھ کر سنائی۔

نیدرلینڈ میں مظاہرین سے کیّا بلوچ، لطیف بلوچ اور جاسم بلوچ نے خطاب کیا۔ جاسم بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی میں فزیالوجی کا اسٹوڈنٹ تھا۔ پاکستانی فورسز نے اسے اسکے والدین کے سامنے گرفتار کیا جب وہ نخلستان میں ان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے اور ماں باپ کی آنکھوں سے کئی گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ اس کے والدین رحم کی اپیل کرتے رہے لیکن فورسز نے کسی کی نہ سنی۔ یہ پاکستانی فورسز کی جانب تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ختم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ بلوچ قوم کی نسل کشی کا تسلسل ہے۔ حیات بلوچ کا قتل بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی نوجوان قتل کئے گئے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ اسی علاقے میں چار سالہ بچی برمش بلوچ کو زخمی کرکے اس کی ماں ملک ناز کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈز نے قتل کیا۔ ان ڈیتھ اسکواڈز کو پاکستان کی جانب سے بلوچوں کو حراسان کرنے، اغوا کرنے اور قتل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ میڈیا بلیک آؤٹ اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی کی وجہ سے یہ تمام معاملات دنیا کی نطروں سے اوجھل ہیں۔ ہزاروں لوگ پاکستان کی خفیہ زندانوں میں بند ہیں۔ ان کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ بلوچستان میں چار ہزار سے زائد دنوں سے ایک بھوک ہڑتالی کیمپ قائم ہے۔ اس وقت بلوچستان میں چالیس ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ ہزاروں کو قتل کرکے پھینک دیا گیا ہے۔ ان میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان بلوچ قوم کی دانشوروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

ایمسٹرڈم میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل اسی نسل کشی کا تسلسل ہے۔ بلوچوں کی ماورائے عدالت قتل میں گزشتہ دو دہائیوں میں تیزی آگئی ہے۔ بلوچ قوم نے امریکہ، جنیوا اور لندن سے لیکر پوری دنیا اور سیاستدانوں کو بلوچ نشل کشی اور مظالم کے بارے میں آگاہی دی ہے۔ حیات کا قتل پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن اسے ریاست کیلئے چھپانا نا ممکن ہو گیا تھا۔ والدین کی گود میں حیات کی قتل کی تصویر بہت ہی دل اہلانے والی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں اس طرح کے جنگی جرائم روزانہ کی بنیاد پر رونما ہورہے ہیں۔ جاسم بلوچ نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے اداروں، انسان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بارے میں اپنی خاموشی توڑ کر پاکستان کو جوابدہ بنائیں۔