تربت: فورسز کا ڈرائیوروں کو روک کر جبری مزدوری لینے کیخلاف احتجاج

281

ضلع کیچ میں کئی دنوں سے گاڑیوں کو روک کر سیکورٹی فورسز کے اہلکار ڈرائیوروں سے جبری مزدوری لے رہے ہیں – مظاہرین

بلوچستان کے شہر تربت میں مشرقی و مغربی بلوچستان کو تقسیم کرنے والی گولڈ سمڈ لائن پر خاردار تار بچھانے اور باڑ لگانے کیلئے فورسز کا تیل کے کاروبار سے منسلک ڈرائیور حضرات سے زبردستی مزدوری لینے کیخلاف آج ڈرائیوروں کا احتجاج۔

زامران عبدوئی میں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی تیل بردار چھوٹی گاڑیوں کو پاکستانی فورسز کی طرف سے روکنے کے خلاف ڈرائیوروں کے رشتہ دار خواتین نے ڈی سی ہاوس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے ایک گھنٹے تک روڈ بلاک کر کے ڈی سی سے ملاقات کی کوشش کی تاہم ڈی سی کیچ نے مصروفیات کے باعث ملاقات نہ کی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ کئی دنوں سے گاڑیوں کو روک کر فورسز کے اہلکار ڈرائیور سے بلا معاوضہ جبری مزدوری کروارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ راستے کھول کر کاروبار کو قانونی شکل دیا جائے تاکہ ہمارا اس سے گذر بسر ہوسکے۔

انہوں مطالبہ کیا کہ سرحد پر دو ہفتوں سے زبردستی روکے گئے ڈرائیور کو واپس آنے کی اجازت دی جائے۔

مظاہرے میں شریک خواتین اور بچوں نے ڈی سی کیچ کے رہائش گاہ کے سامنے بھی دھرنا دیا اور جبری طور پر روکے گئے افراد کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر ڈی سی کیچ کے نمائندے اے سی تربت نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اس سلسلے جلد ہی کوئی پیش رفت ہو گی۔

خیال رہے گذشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تیل بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے باڑ لگانے کیلئے کھدائی کا کام لیا جارہا ہے۔

سرکاری حکام کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مغربی بلوچستان کے سرحد پہ پاکستانی فورسز کی جانب سے خار دار تار لگانے کا سلسلہ گذشتہ کئی عرصے سے جاری ہے ، جس کے بعد حالیہ دنوں یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ علاقے میں روزانہ کی بنیاد پہ تیل کے کاروبار سے منسلک گاڑی ڈرائیوروں سے فورسز اہلکار زبردستی ان خار دار تاروں کو نصب کرنے کے لئے پہاڑی و پتھریلی علاقوں میں کھڈے کھدائی کا کام لے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ گولڈ سمڈ لائن پہ خار دار تار لگانے سے قبل پاکستانی فورسز نے ڈیورنڈ لائن پہ بھی خاردار تار نصب کی تھی جسے کافی حد تک مکمل کرلیا گیا ہے ۔

یاد رہے گولڈ سمڈ لائن کے دونوں پار بلوچ آباد ہیں، بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے ان دونوں سرحدوں کو مصنوعی قرار دے کر ان پہ زبردستی خار دار تار لگانے کے عمل کی مذمت کی جارہی ہے۔