ماسٹر یوسف کو 8 ستمبر 2014 کو مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول معلومات کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے جمک گورکوپ کے رہائشی ماسٹر یوسف خان ولد گُنڈی گذشتہ چھ سال لاپتہ رہنے کے باوجود تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ماسٹر یوسف کو 8 ستمبر 2014 کی شام جمک بازار سے مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق ماسٹر یوسف پیشے کے لحاظ سے ایک استاد تھے اور چاہ سر تربت کے ایک اسکول میں بطور “ایس ایس ٹی” فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
ماسٹر یوسف کی طویل گمشدگی کے خلاف انکی اہلخانہ اور سول سوسائٹی حکومتی اداروں اور حکام بالا سے اپیل و احتجاج کرتی رہی ہے اور انکی جبری گمشدگی کا الزام مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگاتی رہی ہے اور مختلف مواقع پر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر ماسٹر یوسف پر کوئی الزام ہے تو انہیں ملکی قوانین کے تحت عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ یاد رہے دو سال قبل بیٹے کے بازیابی کا انتظار کرتے انکی والدہ کابھی انتقال ہوچکا ہے۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اس وقت بلوچستان سے 40 ہزار سے زائد بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے ہیں۔ وی بی ایم پی، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد عالمی و علاقائی انسانی حقوق کیلئے متحرک تنظیمیں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا الزام پاکستان کے عسکری اداروں پر عائد کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستانی عسکری ادارے ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
جبری طور پر گمشدہ کیئے گئے افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے اغواء و گمشدگی کا الزام بھی پاکستان کے خفیہ اداروں پر لگاتے آرہے ہیں اور بلوچستان کے مختلف پریس کلبوں سمیت کراچی پریس کلب کے سامنے گذشتہ دو دہائیوں سے سراپا احتجاج ہیں۔
گیارہ سال قبل قائم ہونے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز انہی جبری گمشدہ بلوچوں کی لواحقین کی تنظیم ہے، جسکے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے چچا علی اصغر بنگلزئی 2001 سے لاپتہ ہیں اور تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے فرزند جلیل ریکی طویل عرصے تک لاپتہ رہے تھے، بعد ازاں انکی مسخ شدہ گولیوں سے چھلنی لاش پنجگور سے برآمد ہوئی تھی۔ وی بی ایم پی گذشتہ 4027 دنوں سے علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہے اور لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہی ہے۔
یاد رہے بلوچستان میں عید کے روز بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر ریلی نکالی تھی اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔ اس موقع پر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا جبکہ سماجی اور سیاسی کارکنان نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی تھی۔