بلکتی بہنوں پررحم کھائیں
تحریر : شفیق الرحمن ساسولی
دی بلوچستان پوسٹ
آئین پاکستان کے مطابق ریاست اور عوام کو جوڑنے والی بات ضمانتوں کا معاہدہ ہے۔ ملکی آئین کی بنیادی حقوق کی ضمانت کی دسویں شق ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتی ہے کہ اُسے بغیر جرم بتائے اور قانون کے سامنے پیش کیے بغیرحراست میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
آئین پاکستان کے مذکورہ شق کے اعتبار سے بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کئے گئے افراد کامعاملہ ماورائے آئین اور ماورائے عقل بھی ہے۔
لاپتہ افراد کا معاملہ آئین آئین کی رٹ لگانے والوں کیلئے سنگین ہو نہ ہو، جن کے پیارے گمشدہ ہیں ان ماوں بہنوں اور والدین کیلئے یہ موت سے بڑی سنگینیت ہے۔ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کا معاملہ ہمارے ملکی آئین، قانون، عدلیہ، نظامِ جمہوریت اور آزادی ء اظہار جیسے دعووں کی پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ اگر آئین کی بات کی جائے تو ریاستی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں سے نمٹنے کیلئے قانون ہے، جرم ثابت ہونے پر توسزا سنانے کے لیے عدالتیں بیٹھی ہیں، اگر کوئی گلہ دار ہے تو سننے اور حل نکال کیلئے بھی سپریم ادارے، مگر یہاں تو ایک بندوق اٹھانے والا جذباتیت کاشکار خود کو غازی ء ریاست اور محب وطن سمجھ کر باقی سب کو غدار سمجھنے والا از خود قانون بھی ہوتاہے عدالت بھی ہوتاہے اور ریاست بھی۔ پھر مذکورہ صفات کے مالک غازی کے سامنے کیسے کوئی حیات حیاتی پاسکتاہے؟
حسیبہ قمبرانی اور سیمابلوچ جیسے ہزاروں بہنوں کے بھائی گم ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ بس جذبات میں آجاتے ہیں جادو کی چھڑی گھمائی جاتی ہے اور بیک وقت ایک ہی پھونک میں پورا انسان ہی گمشدہ ہو جاتاہے۔
دنیا میں ایسی کون سی ریاست نہیں کہ جس میں گلہ مند شہری نہیں ہونگے؟ ریاست سے اپنے حقوق سلب کرنے کا شکوہ کُن نہیں ہونگے؟ لازم ہیکہ جہاں بھی حقوق سلب کئے جاتے ہیں وہاں آواز اٹھتی ہے مگر بدلے میں وہاں شہری اٹھائے نہیں جاتے بلکہ سنے جاتے ہیں، ریاستی زمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں۔ حقوق دیئے جاتے ہیں۔
اپنے حقوق مانگنے والے سب شدّت پسند یا علیحدگی پسند نہیں ہوتے، وہ حق پرست ہوتے ہیں، مگر جب ان کے شعور و ضمیر کے ساتھ کھیلا جاتاہے ان کو ٹارچر کیاجاتاہے، ان کے بیٹوں اور بھائیوں کو اٹھاکر ان کے حیات جیسے پھولوں سے حیاتی چھینی جاتی ہے اور پھر یہ حقوق کے نعروں سے ہوتے ہوئے کب علیحدگی یا بغاوت کے جنگ کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔
بس! جتنا ہوا جو بھی ہوا یا ہورہاہے اب یہ ظلم بندہوناچاہیئے۔
آج جبری طور پر لاپتہ افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے شہریوں کے حقوق کی ضامن ریاست اور پاسبانِ ریاست سے عرض کرتاہوں کہ ہمارے بِلکتی بہنوں پر رحم کھائیں، لمحہ لمحہ جیتے مرتے اور تڑپتے ماوں اور بہنوں کی ناامید آنکھوں میں امید کے چراغ جلانے کاسبب بنیں، ہمارے لاپتہ پیاروں کو منظر عام پر لائیں۔ اگر لاپتہ افراد میں سے کوئی غلط راہ پر ہےتو قانون کی عدالت میں لا کھڑا کرکے کڑی سے کڑی سزا دیں، اُف کرکے وہ بھی سہہ لیں گے بس! منظرعام پر لائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔