بلوچ لاپتہ افراد کے لیے احتجاج جاری

120

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4033 دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے سیاسی و سماجی کارکنان حفیظ اللہ بلوچ، بیبگر بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ آج بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور شہادت پر امن جدوجہد بن چکی ہے۔ بلوچستان پر قبضے سے لیکر آج تک بے دریغ بلوچ فرزندوں کا لہو بہہ رہا ہے مگر گذشتہ چند سالوں سے پاکستان اپنی فوج مقامی ڈیتھ اسکواڈ، پارلیمانی ایجنٹوں کے ذریعے بلوچ نسل کشی کو اجتماعی شکل دے کر اپنی آخری کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فورسز اور اس کے مذہبی کارندوں نے اب بلوچ فرزندوں کے گھروں سے دوران آپریشن جبری اغواء کرنے بعد ان کی مسخ لاشیں پھیکنے کے عمل کو شروع کیا ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے جعلی مقابلے کا دعویٰ کرکے اس باب کو ختم کردیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ہزاروں بلوچ فرزندوں کو جو پاکستانی زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ آج پاکستانی فورسز کے گولیوں، توپوں کی بارش ہورہی ہے لیکن آج بلوچ نوجوان پیر، جوان، ماں بہنوں کا حوصلہ اور ان کی جرات نے پاکستان کے دلالوں، پارلیمنٹ پرستوں اور نام نہاد حکمرانوں کو جو کل اسی سماج اسی جہو کو اپنا کہتے تھے آج اکثر اپنی لاو لشکر کے ساتھ پاکستانی عہدوں پر بیٹھ کر یہاں فوج بھیج رہے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ ہم پرامن جدوجہد کرنے والے ہیں، مراعات یافتہ نہیں، ہماری مانگ چند مراعات نہیں بلکہ ہماری مانگ لاپتہ فرزندوں کی بازیابی ہے۔ ہماری مانگ کرسی نہیں کہ ہم خوف زدہ ہوجائے۔