بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین عید کے روز سڑکوں پر

533

عید پر لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں لیکن ہمارے پیاروں کی قبریں بھی ہمیں میسر نہیں ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا مر چکے ہیں۔

ہر سال کی طرح آج بھی عید الحضٰی کے پہلے روز بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا گیا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ ریلی نکالی گئی اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا جبکہ سماجی اور سیاسی کارکنان نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

احتجاج کی قیادت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کررہے تھے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا تھا کہ پاکستان کب تک ہمارے ساتھ یہ رویہ اپنائے گا۔ ہمارے پیارے دس دس سالوں سے لاپتہ ہیں، ہمیں اتنا بتایا جائے کہ وہ زندہ ہے یا مرچکے ہیں تاکہ ہمارے دلوں کو تسلی پہنچ سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے درد کو یہ حکمران سمجھ نہیں سکتے ہیں کیونکہ وہ اس درد اور کرب سے کبھی گزرے ہی نہیں ہے۔ آج بھی وہ نئے کپڑے پہن کر خوشیاں منارہے ہیں لیکن بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین عید سڑکوں پر گزار رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کو پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا شکار بنانے کے بعد باہر ممالک میں بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ جس طرح انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو متحدہ عمارات سے لاپتہ کرنے کے بعد پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح کئی افراد کو بیرون ممالک سے واپسی پر پاکستان میں ایئر پورٹ سے اٹھاکر لاپتہ کیا گیا جن کا ریکارڈ موجود ہے۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ ہماری عیدیں ماتم زدہ ہوگئی ہے۔ ہمارے گھروں میں عید پر کھانے نہیں بنتے بلکہ ہماری مائیں یہاں سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھاکر ماتم کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ کرنے والے ملک کے اس نظام کو نہیں مانتے لہٰذا ہمیں بتایا جائے کہ ان کا نظام عدالت کہاں قائم ہے ہم ادھر جاکر ان سے پوچھیں گے کہ تم شک کی بنیاد پر کس طرح لوگوں کو سالوں تک لاپتہ کرتے ہو۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ عید پر لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں لیکن ہمارے پیاروں کی قبریں بھی ہمیں میسر نہیں ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں کیسز دس دس سالوں سے چل رہی ہے لیکن لوگ بازیاب نہیں ہوپاتی ہے، عدالتیں برائے نام رہ گئی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین دراز علاقوں سے پیشی پر آتے ہیں لیکن دوسری تاریخ دے کر انہیں مایوس کرکے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا محوسس ہوتا ہے یہاں کی عدالتیں، کمیشن، قانون اور آئین بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

احتجاج میں لاپتہ جہانزیب کی والدہ بھی شریک تھی جن کے پاس جہانزیب کے لیے عید کی کپڑے اور جوتے موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال میں اپنے بیٹے کیلئے نئے کپڑے اور جوتے خریدتی ہوں لیکن میرا بیٹا لاپتہ ہے اور یہ جوتے، کپڑے ایسے ہی گھر میں رکھی ہوئی ہوتی ہے۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین ہر سال کی طرح اس سال بھی عید پر اپنے پیاروں کیلئے احتجاج پر مجبور ہے کیونکہ ان کے گھروں میں پیاروں کے بغیر خوشیاں وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا ہم کئی بار مطالبہ کرچکے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت انصاف کے تقاضے پورے کیئے جائے لیکن یہاں آئین اور قانون بھی بے بس نظر آتی ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس انسانی بحران کو ختم کرنے کیلئے کرداد ادا کریں اگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو بلوچستان میں انسانی بحران کے ذمہ داری تمام عالمی ادارے ہونگے۔٫0

لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی تصاویر رکھ کر انہیں علامتی خطوط لکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علامتی خطوط ہمارے درمیان فاصلوں کو دور کریگی۔

احتجاج میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بی ایس او کے سابق چیئرمین مہم خان بلوچ، حکیم لہڑی، ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر سیاسی و سماجی کارکنان نے شرکت کی۔

خیال رہے آج سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سندھی، بلوچ، پشتون ایکٹوسٹس کی جانب سے مشترکہ کمپئین چلائی جارہی ہے جو پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں جگہ بنا چکی ہے۔