بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4042 دن مکمل ہوگئے۔ نوشکی سے سیاسی و سماجی کارکن نذیر احمد بلوچ، نوراللہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں قابض ریاستی فورسز کے جبر، استبداد میں جس خطرناک حد تک روز افزوں اضافہ ہورہا ہے وہ بلوچ سرزمین پر ایک انسانی المیہ کا پیش ثابت ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی فورسز کی مزید شدت پاتی کاروائیاں اس امکان کو مستحکم کرتی ہے کہ اب قابض ریاست بلوچستان میں کسی بھی عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لانے کا فیصلہ کرچکی ہے اور بلوچ پرامن جدوجہد کر کچلنے کے لیے اپنے پیش رو قابضوں کی طرح سروں کا مینار کھڑا کرنے سے بھی نہیں چونکے گا۔
ماما قدیر نے کہا کہ پنجگور کے علاقے گچک، اور گردنواح میں گذشتہ کئی روز سے پاکستانی فورسز ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ مل کر آپریشن کررہی ہے۔ اس دوران پانچ خواتین کو چھ کمسن بچوں کے ہمراہ حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آبادیوں کے آبادی جلاکر خاکستر کیئے جارہے ہیں۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی صورتحالی میں لوگوں کے راشن اور پانی کے تمام ذرائع مسدود ہوچکے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کے علمبردار اور بلوچ عوام گچک واقعے کے حوالے سے بھرپور آواز اٹھائیں کیونکہ ان مظالم کیخلاف ہماری خاموشی ہی ظالم کو طاقت فراہم کرتی ہے۔