بلوچستان میں تعلیم جرم اور شعور مجرم کیوں؟
رشید یوسفزئی
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا بھر کی محکوم اقوم کے قومی شعور اور حقوق کی شعوری تحریک کی طرح بلوچ قوم کا شعور اور تحریک بھی دنیا کی ان چند تحریکوں میں سے ہے جس کا علمبردار باشعور نوجوان طبقہ ہے۔ بلوچستان میں یہ نوجوان خیربخش مری، بھگت سنگھ، چے گویرا، فرانز فینن، سارتر، پاؤلو فرارے، ماؤزے تنگ وغیرہ کی ڈائریز اور کتابیں سینے سے لگائے اپنے وطن کے ذرے ذرے کے لیے محبت کے گیت گاتے ہیں۔
یہ نوجوان ان مزاحمت کار مفکروں کے روشن مزاحمتی افکار سینے میں لیے قوم کی ذہنی تربیت کا بیڑا اٹھاۓ ہوۓ ہیں۔ بلوچ طلبا کی یہی روشن فکر ہے کہ آج بطور قوم بلوچ بہ نسبت دیگر اقوام کے زیادہ سیاسی بالغ نظری اور شعوری پختگی رکھتے ہیں۔
یہ اِنہی نوجوانوں کے قومی و سیاسی شعور کے ثمرات ہیں کہ آج ریاست ایک تعلیم یافتہ بلوچ کو سب سے مہلک اور خطرناک ہتھیار تصور کرتی ہے۔ ان بلوچ طلبا کے قلم اور کتاب کے سامنے بندوقیں تھامے رکھتی ہے۔ ان کے سوالوں کا جواب انہیں ان کے جسموں پر سگریٹ کے داغ اور ڈرل مشینوں کے گھاؤ سے دیتی ہے۔
بلوچ طلبا کے ساتھ آۓ روز پیش آنے والے ایسے اندوہناک واقعات ایک مکمل ریاستی ڈاکٹرائن ہے جو گزشتہ ستر سال سے جاری ہے۔ اس میں باقاعدہ شدت کا آغاز مشرف دور کی kill and dump پالیسی سے ہوا۔ جس کا مقصد ہر بلوچ بارآور دماغ کو بندوق کے زور پر ہمیشہ کے لیے خاموش کرانا تھا۔ مختلف بلوچ طلبا تنظیموں کے پلیٹ فام سے پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے طلبا کو اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں توتک اور دشت جیسے اجتماعی قبرستانوں میں دفن کی گئیں۔
شہید قمبر چاکر، شہید الیاس نزر، شہید سنگت ثناء بلوچ و دیگر ہزاروں بلوچ طلباء جو مستقبل میں بلوچ انٹیلیجینشیا کی صورت ابھر کر اس خطے کی تقدیر بدلے سکتے تھے لیکن ریاست کے ان پڑھ جاہل سپاہیوں نے پہلے انھیں لاپتہ کیا اور پھر ان کی ڈرل و مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دیں۔ حیات بلوچ کا قتل اسی تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ یہ محض حادثہ نہیں۔ اور نا ہی یہ صرف ایک ایف سی اہلکار کا ذاتی فیصلہ تھا۔ یہ اس پورے خونخوار ریاستی ادارے کی دہائیوں سے جاری جرائم کی داستان ہے جو اس نے بلوچ سرزمین پر روا رکھی ہے۔ بلوچستان کے چپے چپے پر ڈیتھ سکواڈز کا قیام، زندانوں میں قید ہزاروں بلوچ طلبا، ہزاروں مسخ شدہ لاشوں کی داستان، بلوچ سرزمین کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار سب اسی جبر کی کَڑیاں ہیں۔
مزید دکھ اس بات کا ہے کہ ریاست اپنی بندوق ایک عام پشتون سپاہی کے ہاتھ میں تھما کر اسے ایک نہتے بلوچ طالبعلم کے سینے میں گولیاں پیوست کرنے کے لیے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں قصداً بھیجتی ہے۔ چند ٹکّوں کے عوض ایک محکوم کے مقابلے میں دوسرے محکوم کو کھڑا کرتی ہے تاکہ پشتون بلوچ کا جو خون حاکم طبقہ خود براہ راست نہیں بہا سکتا، وہ انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر بہا سکے۔ ان کی قوت کو کھوکھلا کرکے ان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا تسلط جاری رکھ سکے۔ جہاں پشتون کو پراکسی نہ بنایا جا سکے تو وہاں اسے بلوچوں کے ساتھ قتل و قتال کے لیے بھیجا جاۓ۔ بلوچستان کی سرزمین جہاں کوہاٹ، اٹک، لکی مروت وغیرہ سے بھیجے گئے پشتونوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بلوچوں کے لہو سے تر ہے وہاں اِن وحشیانہ ریاستی پالیسیز کی وجہ سے قتل ہونے والے ان پشتون سپاہیوں کے خون کی ذمہ دار بھی یہی وحشی ریاست ہے جس سے وقت اور تاریخ جواب لے کر رہی گی۔
ان جابرانہ پالیسیز کے باوجود بھی ریاست اور اس کے بے حس حامیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی قوم کا نوجوان طبقہ جب شعور کی شمعیں اٹھا کر نکلے تو انہیں برین واشڈ کہنا خود پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
لہو سے تر حیات بلوچ کا قلم اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ تم بلوچ طلبا کے شعور کو گولیوں سے نہیں بھون سکتے۔ تم غداری کے تعفن زدہ اور بے بنیاد الزامات لگا کر بلوچ قوم کے سیاسی شعور کے اس درخت کو نہیں اکھاڑ سکتے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو ایک طرف تمھاری طرف سے مسلط کردہ سرداروں کے خلاف مزاحمت کی علامت بنے ہوۓ ہیں تو دوسری جانب تمھارے ریاستی بیانیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ تم ان باشعور بلوچ طلبا کو سامنے بٹھا کر ان کے سیاسی و علمی دلائل کے سامنے ایک منٹ بھی نہیں ٹک سکتے تبھی تم اپنی بندوقوں کی آگ سے انہیں بھسم کرنے پر تُلے ہوۓ ہو۔
یاد رہے کہ اجتماعی قومی شعور کو جبر، تسلط اور تشدد سے ختم نہیں کیا جا سکتا جس کی سمجھ شاید تمھیں مکمل مِٹ جانے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے سے قبل نہ آۓ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔