انصاف؟ – زیرک بلوچ

625

انصاف؟

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جہاں لفظ انصاف، مساوات، حقوق، بنیادی ضروریات زندگی بے معنی ہوں، جہاں انصاف کے راستے متعین کرنے کے لئے قوانین نہ ہوں، کوئی قانون ساز ادارہ نہ ہو، وہاں انصاف کس لئے کس سے کیونکر؟ انصاف زندگی کی بخشش کے لئے کہ ہمیں جینے دیا جائے کیونکہ ہمیں جینے کا حق ہے اور اگر یہ حق میسر نہ ہو تو؟ آج کی مہذب دنیا نے انصاف، برابری و آزادی کے نام پہ جتنے بھی ادارے بنائے کیا ان اداروں کے زریعے یا ان کے فیصلوں کے زریعے کسی غلام کو آزادی نصیب ہو سکا ہے جو اب ہوگا۔ انصاف وہاں وجود رکھتا ہے جہاں قوانین اور ان قوانین کو لاگو کرنے والے ادارے ماتحت قانون وجود رکھتے ہوں۔ اب یہاں ہمارے گلزمین پہ کب کسی آئین و قانون کے تحت کوئی عمل کیا گیا، جسکی ہم توقع کریں کہ ہمیں بھی مل سکتا ہے۔

پہلی دنیا کے باسیوں کے لئے انصاف کا معنی مختلف ہے اور تیسری دنیا کے باسیوں کے لئے بلکل مختلف، غلام اقوام کو ماورائے عدالت اس لئے قتل کیا جاتا کہ وہ کسی بھی ملکی و ریاستی قانون کے تحت انسان نہیں سمجھے جاتے جب کہ ریاستیں لوگوں کے ضروریات کے بناء پر وجود میں آتی ہیں اور غلام کو کبھی انسان سمجھا ہی نہیں جاتا، نہ ہی سمجھا گیا بلکہ غلام اقوام نے اس اجتماعی اذیت سے نکلنے کے لئے مزاحمت کی اپنے بقاء کے لئے اپنے شناخت کے لئے۔ کیونکہ دنیا کا کوئی بھی انصاف کا ترازو کبھی غلام کو تولتا ہی نہیں بلکہ اس کے زمین کو اس کے ساحل وسائل کو اور اپنے مفاد کو تولتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش میں غلام قوم کے افراد کو اپنا ایندھن بناتا رہتا۔

جس خطے میں بس مفادات کی جنگ ہو وہاں انصاف کی توقع اس ظالم دنیا سے کرنا جو اپنی درندگی چھپانے کے لئے بس قتل و غارتگری جانتا ہو، وہاں انصاف وجود ہی نہیں رکھتا وہاں انصاف کے بارے میں سوچنا کہ اسے آئین و قانون کے تحت جینے کا حق، سماجی ، سیاسی و معاشی آزادی میسر ہو ایک حسین خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انصاف کا سوال وہاں جنم لیتا ہے جہاں ہر شئے فطری بنیاد پر ہر ایک انسان کو فطری بنیادوں پر سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کا حق حاصل ہو جہاں قوانین انسانوں کے لئے اس لئے بنائے جاتے ہوں تاکہ وہ ایک مضبوط میکنزم کے ساتھ جڑے رہ سکیں اور انکی زندگیوں سے دوسرے کو بھی فائدہ حاصل ہوسکے، ہر عمل، ہر فعل کو تولا جاسکے اور ایک میکنزم کے تحت سب کو ایک ساتھ ایک ہی نظر سے دیکھا جاسکے اور اب بحثیت بلوچ میرے گلزمین کا بس ٹکر اس سامراج کو پسند ہے باقی تمام زمیں پہ رہنے والے لوگ تو کیڑے مکوڑے غلام ہی سمجھے جاتے ہیں۔

جیسے کہ ضیاء نے کہا تھا ہمیں بلوچوں سے نہیں بلکہ بلوچستان سے غرض ہے تو ھم کس سے انصاف کی توقع کررہے ہیں ان اداروں سے جو سامراج کے ماتحت ہیں یا ان اداروں سے جنہوں نے اپنی لوٹ مار کے لئے آدھی دنیا کو جنگ کا میدان بنا رکھا ہے۔

غلام کے لئے انصاف بس مزاحمت سے ہی حاصل ہے، تمام حاصلات کا ایک حاصل مزاحمت۔ حیات کا قتل ایک سپاہی نے نہیں کیا بلکہ یہ سامراجی میکنزم کے تحت برسوں سے کیا جارہا ہے، اس میں کچھ انوکھا نہیں کہ ایسے کئی حیات شہید کئے جاچکے ہیں، کئے جائیں گے کیونکہ حیات پہلا نہیں اور نہ ہی آخری ہے جب تک غلامی کی زنجیروں کو اپنے کمزور دانتوں سے کاٹنے کی کوشش نہیں ہوگی ہزاروں نوجوان انکے والدین کے سامنے گولیوں سے بوندھ دیئے جائیں گے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا، جب تک ہم ایک سائے تلے یکجا نہیں ہونگے۔ کیونکہ سامراج کا ہر فعل ہمارے لیئے اجتماعی طور پر بطور ایک سزا دیا جاتا ۔ سزا جسکا گناہ بس اتنا سا ہے کہ وہ بلوچ ہے اور ہہی کافی ہے اسے مارنے کے لئے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔