انتہائے ظلم کیا ہوگا
یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انور مقصود نے خوب کہا تها کہ”مجهے نہیں معلوم بلوچستان میں یہ قومی جدوجہد ہے یا طبقاتی یا کوئی اور آزادی کی جنگ، مگر مجهے اتنا ضرور پتہ ہے کہ جس طرح بلوچستان کے بیٹے سر راه خون میں لت پت ہورہے ہیں، وہاں اب ظلم کی اندهیری رات زیاده دیر تک نہیں ٹک سکتی ہے، ظلم اپنی انتہا پر صرف مٹنے کے لیئے برپا ہوتا ہے”
سرزمینِ بلوچستان میں ظلم و جبر نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد شروع ہوئی، اس ظلم و جبر میں لوگ بے گناه قتل ہوئے، مسخ شده لاشیں آئیں، لوگ جبری طور پر لاپتہ بهی ہوئے۔
جب وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہوئے، تو وہاں پر بهی ظلم و بربریت کا بازار گرم رہا، لوگ بے دخل ہوئے، گهر مسمار ہوئے، جنت نظیر وادی جہنم نظیر بن گئی۔
کچھ مہینے پہلے اتفاقاً ایک پٹهان ڈمپر ڈرائیور سے میری بات ہوئی، وه وزیرستان میں رہتا تها اور حالات کی وجہ سے وه نقل مکانی کرکے ٹانک چلا گیا اور وه بلوچستان میں ڈمپر ڈرائیور کے طور پر کام کررہا ہے۔
قدرت نے مجهے ایک ایسے طبیعت ست نوازا ہے کہ میں جس سے ملوں تو گویا ہم دونوں سالوں سے دوست ہیں، بس انسان ہو ،چاہے جو بهی ہو، سویلین ہو یا فوجی ہو،غریب یا امیر،ڈرائیور یا مزدور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
باتوں بات میں خیالات اور داستان سے وزیرستان پہنچا تو حقیقتاً وه بهی وزیرستان کا تها، فوجی آپریشن نے اسے ٹانک شفٹ کرایا تها، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم جہاں بهی جاتے ہیں بڑے بڑے مٹی کے گهر بناتے ہیں، گویا وه محل ہیں لیکن اس آپریشن نے ہم جیسے مزدوروں کے گهر بهی تباه کر دیے، کچھ لوگ جو صاحبِ دولت تھے وه کراچی گئے اور ہم جیسے مزدور ٹانک میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جب ہم گہرائی تک پہنچے تو اس نے اداس چہرے ست مجھ سے کہا کہ کچھ وقت پہلے کی بات ہے کہ جب ہم کسی چیک پوسٹ ست گذرتے تو گاڑیوں اور لوگوں کی لائن لگتی تهی، خواتین اور مرد ایک ایک کرکے اپنی تلاشی دیتے۔
جب اسکی شیریں گفتار میں منظور پشتین کا نام آیا تو اس نے تهوڑی مسکراہٹ کے بعد جواب دیا، منظور نے چیک پوسٹیں کم کرائیں، چیکنگ نارمل کرائی اور اب ہم تهوڑا آزاد لگتے ہیں، ورنہ منظور نہ ہوتا تو ہم دوباره وزیرستان جانے کے خیالات میں مر چکے ہوتے۔
مجهے حیرت ہوئی اس بات کی اور آج بهی ہے کہ یہی منظور کو تو غدار کہتے ہیں، را ایجنٹ کہتے ہیں، یہ ہے وزیرستان کا اصل لیڈر ہے؟ مگر مجهے تاج جویو نے مطمئن کیا اور کہا کہ آپ منظور کی بات کر رہے ہو؟ میں تو صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوں اور میرے بیٹے سارنگ ابهی ابهی گهر واپس لوٹے ہیں اور اسے بهی انہی بیانات کی وجہ سے بغیر نمبر پلیٹ والی ویگو نے اٹها لیا تھا اور آخر میں تاج نے کہا کہ ہم سندهی بهی اسی طرح ہیں، جس طرح بلوچ اور پشتون ہیں۔
سرمد سلطان کے آج والے ٹویٹ نے مجهے یہ کالم لکهنے پر بہت مجبور کیا، سرمد نے کہا کہ”مارچ 1948، ڈهاکہ میں طلبہ پر فائرنگ ہوئی، مارچ 1952 ڈهاکہ میں طلبہ پر گولی برسائے گئے، اکتوبر 1968، بنگال میں طلبہ کا قتلِ عام ہوا، مارچ 1971، ڈهاکہ یونیورسٹی میں فوجی آپریشن ہوا اور دسمبر 1971 میں ڈهاکہ میں پروفیسرز کا قتلِ عام ہوا۔
اس سب داستانوں کے بعد بهی قلم تهکا نہیں اور نتیجتاً میں نے سوچا انور مقصود نے سچ کہا تها جب ظلم انتہا تک پہنچتی ہے تو انقلاب خود بہ خود برپا ہوتا ہے، جس طرح مشرقی پاکستان(بنگلادیش) میں ہوا تها، جس طرح وہاں پر طلبہ شهید ہوئے اسی طرح بلوچستان ، پختونخواه اور سندھ میں ہوگا اور ہو رہا ہے، بلوچستان کا طالبعلم حیات بلوچ کو ای سوچ نے شهید کیا اور ہزاروں طالبعلموں کو اسی سوچ نے گمشده کیا۔
ملک ٹکڑے ہو گئی، ہم سیکھ نہیں پائے، صرف وردی بدل گئی، سوچ نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔