خون سے لَت پَت قلم – قندیل بلوچ

861

خون سے لَت پَت قلم

تحریر: قندیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی وجود کو قلم نے برقرار رکھا ہے۔ قلم نہ ہوتا دنیا کا وجود برقرار نہیں رہ پاتا۔ آج علم بھی قلم کا محتاج ہے، علم ہندسہ،علم کیمیا سے لیکر، علم حیاتیات اور تمام کا وجود صرف قلم کی نوک کی لکیر نے برقرار رکھا ہے۔ قلم نے دنیا کے ہر شئے کو الگ الگ شناخت بخشی، آج دنیا میں جس سامراج کی شناخت قلم کی نوک کی لکیر کا محتاج ہے، وہ قلم پر پیر رکھ کر اسے کچل رہے ہیں یا اسے بندوق کی نوک پر رکھ کر اس پر گولیاں برسا رہے ہیں، یقیناً جس سماج کے ہاں قلم کی یہ حالت ہوتی ہے تو قلم بھی اسکی شناخت اور حالت بدل دیتی ہے۔

تیرہ تاریخ کو تربت میں طالب علم حیات بلوچ کی شہادت کی اطلاع ملی، مجھے بہت افسوس ہوا کہ آج ظالم سماج علم اور قلم کو بھی معاف نہیں کر رہے ہیں، حیات کا مسکراتے تصویر کو دیکھا۔ اس مسکراتے ہوئے تصویر سے پوچھا، کیا آپ حیات ہو؟ اس نے کہا ہاں میں حیات ہوں۔ بعد میں سوچا حیات بھلا کیسے مر سکتا ہے، حیات تو حیات ہے۔

کچھ دیر بعد میری نظر حیات کی خون سے لت پت قلم پر پڑی تو قلم سے پوچھا آپ کا بھی یہی حال ۔ قلم نے سسکتی ہوئی لہجے میں کہا اس سماج میں حیات کو حیات ہونے نہیں دیتے وہاں بھلا قلم اور علم کی کیا عزت ھے۔

سنا ھے جب سامراج خوف اور ہچکچاہٹ، بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ بندوق سے زیادہ قلم سے خوف محسوس کرتی ھے ۔

دادا ہمیشہ کہتا تھا پوتا بزدل جتنا طاقتور کیوں نہ ہو وہ مظلوم سے ڈرتا ھے۔ بزدل بہادر پر ظلم اس لئے بے تحاشہ کرتا ہے یہی سوچتا ہے کہ جب اٹھ جائے مجھے مار دیتا ہے، اسی خوف سے بزدل سامراج مظلوم اور محکوم کو خوف میں ڈال کر حراساں کرتا رہتا ہے۔

ہمیشہ دنیا کی تاریخ میں بزدل اور بہادر کو دیکھیں بزدل نے بہادر کو کچلنے کی بے تحاشہ زور اور کوشش یہی سوچ کر کرتا ہے کہ جب اٹھے گا مجھے ماردے گا۔

دادا کی یہ بات آج چھبیس سال کے بعد میرے ذہن سے نہیں نکلا کیونکہ میرے سامنے بلوچستان میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں ۔بزدل کی ناکامی اور بوکھلاہٹ کی واضح ثبوت پیش کرتے ہیں۔

بلوچ روایات میں جنگ میں ہمیشہ گناہ گار و بے گناہ بچے بوڑھے کا خیال کرتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے بلوچ قوم کو ایک بیرونی بزدل دشمن سے سامنا ہے، وہ جنگ کے دوران بے گناہ طالب علم بوڑھے بچے عورتیں کو شہید کرنا اپنا دفاع سمجھ رہے ہیں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی دہشتگردی کے عالمی سرغنہ پاکستان کے فوج اور ایف سی کو پہاڑوں کی طرف سے گولیاں آتی ہیں تو وہ بوکھلاہٹ کاشکار ہوکر عام آبادی کی طرف فائرنگ شروع کرتے ہیں۔

علم ، قلم اور حیات تینوں ایسے لفظ اور کردار ہیں، بندوق کی نوک توپوں کی برسات سے نہیں مٹ سکتے ہیں۔ حیات کی خون سے لت پت قلم کو اب اسی ایف سی کو نشان دیا جائے، وہ ایف سی حیات کی قلم کو دیکھ نہیں سکے گا کیونکہ وہ قلم حیات کا قلم تھا وہ ایف سی اہلکار کو حیات کی بے گناہی کی قتل کا ثبوت صاف الفاظ میں پیش کرے گا۔

وہی قلم حیات کے خون سے لت پت ہے، وہی حیات کی زبان سے حیات کی بےگناہی کو پاکستانی فوج ایف سی اور آئی ایس آئی کے سامنے بیان کرکے پاکستان کو براہ راست دہشت گرد لکھتا ہے ۔

دوسری بیہودہ بات یہ ہے کہ حیات کی شہادت کے بعد بلوچستان میں تمام سیاسی پارٹیاں اور طلباء سیاسی پارٹیوں نے تربت ۔کراچی کوئٹہ میں احتجاج کرکے حیات بلوچ کو انصاف دینے کی اپیل کی ہے ۔

بلوچ قوم پر ظلم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں کسی کو انصاف نہیں ملا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کی ریپ کرنے والے ،اکبر بگٹی کو شہید کرنے والے برمش کو زخمی کرنے والے ملک ناز اور کلثوم کو بے گناہ شہید کرنے والے سمت ہزاروں بلوچ کے قاتل سرعام گھوم رہے ہیں کسی کا کوئی بال تک بیکا نا کرسکا۔

۔ حیات کو شہید کرنے والے ایف سی اہلکار پولیس کے حوالے ہیں۔ ایف آئی آر نامعلوم اہلکار کے نام سے درج ہیں، یہ بات واضح طور پر ایک سیاہ جھوٹ ہے کہ بلوچ کا قاتل پولیس کے حوالے ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔