آن لائن کلاسز اور بلوچستان کی سنگین صورتحال
تحریر : بجار عزیز
دی بلوچستان پوسٹ
جہاں آج کورونا وائرس نے دنیا کے ہر شعبے کو اثر انداز کیا ہے۔ وہاں آج بلوچستان میں تعلیم کا نظام کورونا جیسی وباء سے بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ اس جدید دور میں جہاں دنیا انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے مستفید ہورہی ہے۔ لیکن آج انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے طلباء بے حد متاثر ہوئے ہیں، اور دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بلوچستان کو نذر انداز کر کے آنلائن کلاسس کا آغاز بھی شروع کردیا ہے۔
بلوچستان میں سالوں سے نیٹ کی معطلی کے خلاف اور آن لائن کلاسوں کو منسوخ کرنے کے لئے بلوچستان کے طلباء سڑکوں پر نکل آئے ہیں، پر امن احتجاج کیئے گئے اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے لیکن یہاں کوئی نہیں جو طلبا کو سنے۔
اس کے علاوہ گورنمنٹ کی طرف سے سہولیات دیئے بغیر مختلف یونیورسٹیوں نے آن لائن امتحانات کا آغاز کردیا ہے، جسکی وجہ سے اس نازک صورتحال میں بہت سے طلباء اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر امتحانات دینے کے لئے دوسرے شہروں میں چلے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں غربت کی وجہ سے بیشتر طلباء کلاسز نہ لینے کی وجہ سے اپنی حاضری پوری نہ کر سکے اور یونیورسٹی کی طرف سے کم حاضر طلباء کو امتحانات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور بلوچستان حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ بلوچستان کے اس مسئلے کو حل کرنے کے باوجود دوسری طرف مختلف یونیورسٹیوں نے ان لائیں داخلہ فارم جمع کرانے کےلئے بھی ایک مختصر سا وقت طے کیا ہے جو اس وقت بلوچستان کے طلبہ کے لئے بہت مشکل ہے اور اس وباء سے پہلے ہی تعلیم سے محروم ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچ اور پشتون قوم کی محرومت کو دیکھ کر تعلیم اداروں میں بلوچستان کے لئے خصوصی وقت مختص کرے تاکہ طالب علم آسانی سے اپنا داخلہ فارم جمع کراسکیں۔
لیکن حکومت کی طرف سے بلوچستان کو بار بار نظرانداز کرکے اس کو مزید پسماندہ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے جو قابل برداشت نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔