یہ لڑکی جان لے کر چھوڑیگی
تحریر: عبید ابدال
دی بلوچستان پوسٹ
ہم وقت کے مارے لوگ کتے کی زندگی جی رہے ہیں اور اِس نامراد جسم کو مزید کچھ غیر معین ایام کے لئے گھٹتے ہوئے سانسوں کے ساتھ متحرک رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ادھر سے ایک بہت بڑا باؤلا عفریت آہِن و بارود سے لیس ہوکر گلیوں، بازاروں، سڑکوں، ویرانوں، بیابانوں میں انسانی گوشت و خون کی تلاش میں دندناتا پھرتا ہے۔ ہم نہتے لوگ آواز بھی نہیں نکالتے اور ہمسائے میں چیخ و پکار کی آوازیں سن کر جھانکنے کی بھی جرات نہیں کرتے کہ کہیں یہ یاجوج ماجوج ہماری بوُ نہ سونگھ سکیں۔ اس جان لیوا خوف کی فضا میں ہم لوگوں نے خود کو مدہوش رکھنے کے لئے طرح طرح کے نشے دریافت کئے ہیں۔ کہیں دین اِسلام کی تبلیغ ہے تو کہیں کوک اسٹوڈیو کی نیم تاریک ماحول میں مدھر دُھنوں کی جھنکار، ان سب کے ساتھ ساتھ جیوٹی وی، آج ٹی وی، اےآر وائی وغیرہ وغیرہ پر صنم بلوچ و ماہ نور بلوچ جیسے دمکتے چمکتے چہرے اور کسے ہوئے سُرین و رانوں کے روح پرور نظارے ہیں کبھی کبھی عیاشی کے لئے کچھ میگا بائٹس کی ٹِک ٹوک پر حُسنِ عصر پاک نسل وخون کے سیدہ محترمہ حریم شاہ کا سُرخ و سپید پُر نور فگر کو آنکھوں میں سمیٹتے ہیں یا پٹھانی گلابی جِلد والی کاغذی جِلد کی دُبلی پتلی صندل خٹک کی خوشبو کو خبروں کے چٹخارے میں محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنا پیٹ کاٹ کر فیس بک کے پیکجز کے سہارے کچھ جانے انجانے کرداروں سے بصری سرگوشیوں کا سلسلہ بھی اپنےاِرد گرد آئے روز دِن دھاڑے گم ہونے والے نوجوانوں اور مسخ شُدہ لاشوں کی خبروں سے توجہ ہٹاکر اپنے آپ میں دُھت رہنے کا بہانہ ہے لیکن یہ لڑکی
اِدھر اُدھر سے گھوم پِھر کر پھر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے
یہ روتی بلکتی لڑکی جان ہی لینے کے دَر پے ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے بہادر بھائی باشعور بھائی اور زندگی کے میدان میں کسی حد تک نمایاں جرات کے ساتھ سرگرم بھائی بھی کچھ نہ کرسکے۔ اُن میں سے ایک نے اپنی جان دے کر بھی ان گوشت پوست کے مشینوں میں انسانی سانس بحال نہ کرسکا اور باقی کے دونوں نے بھی موقع کو غنیمت جان کر اپنی جان کو محفوظ رکھنے کے لئے خاموشی کا سودا نہ کیا تو ہم جیسے ڈرپوک کیا کرسکیں گے۔ ہم تو اُن سپر تھری کیوز SUPER 3Qs کے سامنے نرے LOOSERS ہیں۔آئے دِن بِلِک بِلک کر رو رو کر ہلکان ہونے والی یہ لڑکی اپنی اِن مہلک اداؤں سے ہمیں ورغلاتی ہے بھڑکاتی ہے کچوکے دے دے کر ہلاتی ہے کسی نہ کسی وسیلے سے سامنے آجاتی ہے اور سسک سسک کر ہمارا محاسبہ کرتی ہے۔
جبکہ اِس نے دیکھ بھی لیا کہ اِس کے دو گمشدہ بھائیوں کے لئے سسکیوں پر چار بھائیوں نے اگلے دِن زندگی پلیٹ میں رکھ کر آدم خور درندے کو پیش کردیئے۔
جی ہاں ان حالات میں یہی ممکن ہے۔ ہمارے پاس اِن سسکیوں پر وارنے کے لئے یا تو آنسو ہیں یا سر۔اِس سے زیادہ بھی ہو تو مزید سر ہی وارے جاسکتے ہیں۔ اے ظالِم لڑکی کچھ خیال بھی کر کہ یہ سسکیاں ایرانی ڈیزل کے اسمگلر زمبادیوں تَک پہنچتی ہیں نہ لوفر نوکروں کی رانوں کے بیچ پَلے “خَن شیف ” پارلیمانیوں کے کان اِتنے حساس ہیں اِن سسکیوں کو سُن سُن کر غیرت میں جان دینے کے لئے یہی سر پھرے سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے چُنِندہ طالِبعلم میدان میں کود رہے ہیں۔
حالانکہ اِس سے پہلے سینکڑوں رونے والے آئے رو رو کر چلے بھی گئے اب بھی ایک سانولا سا بیمار و نحیف بوڑھا ساتھ کھڑا روتا رہتا ہے۔ یہ بوڑھا گزشتہ دس سالوں سے مسلسل رو رہا ہے لیکن اُس کے رونے پر دِلوں میں وہ ارتعاش نہیں پیدا ہوتا کیونکہ باقی رونےوالے اپنے آنسوؤں کو اظہار سمجھ کر خاموش ہوتے ہیں مگر یہ لڑکی جو اپنے آنسوؤں کو اپنے الفاظ کےساتھ مِلا کر جِس اپنے درد میں پورا بلوچستان سمیٹ کر لہو میں غلطان زخم زخم جگر پارے بکھیرتی ہے۔ واللہ جان لیتی ہے اور جان سے کم قیمت پر راضی ہی نہیں۔ بابے بہت مشکل وقت ہے۔ اس سے بچ پانا جوئے شیر لانے سے کم ہَر گِز نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔