“یہی میری جیت ہے” عبدالواحد آریسر
محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
جب پہلی بار آدھی رات کی تاریکی میں وردی والوں نے سندھ کے نوجوان مقرر، ادیب، دانشور اور سیاسی کارکن عبد الواحد آریسر کو تھر سے انکے کچے گھاس پھوس سے بنے چونریں سے اُٹھایا تھا تو مزاحمت پر بندوق والوں نے ایک سنگینی اس عورت کو بھی ماری تھی جو آریسر کی بیوی اور آندھرہ کی امی تھی، آریسر کی آنکھوں پر سیاہ پوش چڑھا دیا گیا۔
اسے بہت پیٹا گیا، اس کے نازک گالوں پر چماٹوں، مکوں کی بارش کی گئی اور ذہنی ٹارچر کے لیے آریسر کو لطیف کی زبان میں وہ گالیاں دی گئیں جو گالیاں آریسر اپنے سخت ترین دشمن کو بھی نہ دے۔ ویسے آریسر تو لطیف کے تمر کی مانند سید کا فقیر تھا۔ اسے یا تو آتے تھے نیاز ہمایونی، ایاز سے لیکر لطیف کے بہت شعر یا وہ انداز جس انداز میں اس نے سندھ پر جادو کیا ہوا تھا، پر آریسر کہتا تھا کہ وہ وردی والے، وہ بندوقوں والے مجھے ایسی ایسی گالیاں دے رہے تھے جس سے کارونجھر شرم سے جھک گیا تھا۔
مور اداس ہو گئے تھے، کارونجھر کا گلابی پتھر شرم سے کالا پڑ گیا تھا، تھر میں موجود چونرے نیچے کو جھک رہے تھے، تھر کی ریت احتجاجاً ہوا میں پھیل گئی تھی۔ مندروں کے دیئے بجھ گئے تھے، پنڈت اپنے بھجن بھول بیٹھے تھے۔ تھر کے کنوؤں میں پانی مزید نیچے ہو چلا تھا اور میں نے دیکھا کہ آندھرہ کی ماں کے سر سے خون بہہ رہا تھا جو نہ تو لطیف سے واقف تھی، نہ سچل سے، نہ سید سے، نہ گاندھی سے اور نہ ہی مولانا آزاد کی بھاشنوں سے۔
میں تھا جو سر نیچے کیئے آنکھوں پر سیاہ پوش چڑھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس عورت کا کیا قصور جس عورت نے اپنی زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر گندم کی روٹی بھی نہیں کھایا، جس نے میری جدائی کو سہا یا آندھرہ کی نیپی کو بدلا ہے یا اپنے ہی ہاتھوں سے چکی پر جو پیس کر اس آٹے کی سخت روٹی کھاتی رہی ہے۔ مجھے ایک منٹ کے لیے خیال آیا کہ میں آندھرہ کی امی کا مجرم ہوں۔
جس خیال سے میں کمزور پڑ گیا، دل نے چاہا کہ کیوں نہیں عزت سے کوئی نوکری کر لیتے اور اس نا سمجھ، سیدھی، معصوم، ان پڑھ عورت کو وہ کھانا دیتے جو انسان کھاتے ہیں۔
پھر دوسرا خیال آیا نہیں میں یہ جو کر رہا ہوں سندھ کے لیے کر رہا ہوں، کل میں رہوں یا نہ رہوں پر تاریخ مجھے اس صف میں کھڑا نہیں کریگی جس صف میں وہ کھڑے کیے جائیں گے جن کی قبروں پہ کتے لوٹتے ہیں پر تاریخ مجھے اس صف میں کھڑا کریگی جن کی قبروں پہ دئے جلتے ہیں اور جب جوان، خوبصورت جسم ہاتھ اُٹھا کر نعرہ لگا تے ہیں کہ
،،مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں!،،
جب میں سمجھتا ہوں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ جوان خوبصورت جسم ہوشو غلام کے سیاہ ہونٹوں کو چوم رہے ہیں اور ہوشو آگے بڑھ کر ان گلابی خوبصورت پنکھڑی نما ہونٹوں کا بوسہ لے رہا ہے۔
یہی ہوش کی تاریخ میں جیت ہے
پھر بندوق برداروں کی گاڑی چلتی رہتی
وہ مجھے اپنے لانگ جوتوں کے درمیان بٹھاکے، مجھ پر بھاری جوتوں والا پیر رکھ کر مجھے گالیاں دیتے رہتے اور میں ان گلیوں میں نکل جاتا، جن گلیوں میں محبت ہوتی ہے۔ جن گلیوں میں گل پوشی ہوتی ہے۔ جن گلیوں میں محبت بھری جھپیاں ہوتی ہیں۔ جن گلیوں میں ہاتھ بلند کیئے نعرے ہو تے ہیں۔ جن گلیوں میں نازک ہونٹ ان الفاظ کو دھراتے جاتے ہیں، جو الفاظ تاریخ کے ماتھے پر درج ہوتے ہیں اور انہیں کوئی مٹا نہیں سکتا، جن الفاظ میں غیرت کی بو آتی ہے۔ جو الفاظ دھرتی سے دل سے ہوتے غلام لبوں سے نکلتے ہیں اور نکلتے ہی نازک گلابی ہونٹوں میں ایسے پیوست ہو جاتے ہیں جیسے جسم میں روح کن فیکون کے بعد پیوست ہو جاتی ہے۔ پھر میرے سر پر بھا ری جوتوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ پھر میرے گال پر کسی کا زور دار چماٹ پڑتا ہے۔ پھر میرے جسم پر زور دار لاٹھی پڑتی ہے۔ پھر مجھے آندھرہ کی ماں کے نام کی گالی دی جا تی ہے۔ پھر میری ماں کو بازار میں بٹھایا جاتا ہے۔ پھر مجھے انڈین اینجٹ کہا جاتا ہے۔ پھر مجھے ایک زور دار لات مار کر چلتی گاڑی میں پرے دکھیل دیا جایا ہے۔
مجھ پہ نیم بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے۔ کبھی خواب میں کبھی جاگ میں، میں آندھرہ کو دیکھتا ہوں جو اتنی معصوم اور اتنی چھوٹی ہے کہ اگر میں اسے زور سے اپنے سینے سے لگاؤں تو اس کے پر ایسے کٹ جائیں جیسے مور کو طاقت سے پکڑنے پر اس کے پر کٹ کٹ کر ہوا میں تحلیل ہونے لگتے ہیں۔
پھر مجھے یاد آتی ہے وہ عورت جو مجھے نہیں معلوم کہ خوش قسمت ہے یا بد قسمت!
پر وہ میری بیوی ہے
اس کے ہاتھوں میں بہت سا باجرہ ہے اور وہ اس کو چکی پہ پیس رہی ہے
اور میں دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ اس کی مانگ سے خون ٹپک رہا ہے
میں آگے بڑھ کر اسے کہتا ہوں کہ
،،دیکھ آندھرہ کی ماں
تاریخ نے تیری مانگ میں یہ سرخ سندور کو بھر دیا ہے!
وہ شرما جاتی ہے پر اس سے کراہ نکل جاتی ہے، میں ہاتھ بڑھا کر اس سرخ سندور کو دیکھتا ہوں تو وہ لہو ہوتا ہے، جو بندوق بردار نے اسے سنگینی مارتے ہوئے، اس کے سر کو کھول دیا تھا۔
جب مجھے ایاز بہت یاد آتا ہے
،،سیندھ تنھنجی کڈھن میری نہ تھیے
پھول تنھنجا کڈھن نہ مرجھائیجن!،،
اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس معصوم عورت کو بھی کہوں کہ
،،دیکھو میرے ساتھ ساتھ تاریخ تجھے بھی یاد کریگی!،،
پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس عورت کو تو گندم کی روٹی ہی نہیں کھلا پایا، میں اس عورت کا مجرم ہوں!
چلتی گاڑی میں، من کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ کارونجھر آگے بڑھ کر ان بندوق برداروں سے کہہ رہا ہے،،اسے کیوں لے جا رہے ہو اس کے قدم تو ہماری آنکھوں پہ بھی ابھی نہیں پڑے!،،
پر وہ کارونجھر کی کوک کو نہیں سن پاتے
پھر میں تاریخ کی گلیوں میں کھو سا جاتا ہوں میں دیکھتا ہو ں کہ
جوان جسموں کے خوبصورت لب میرے لکھے الفاظ پڑھ رہے ہیں
میں ان کے نرم و نازک ہونٹوں سے ادا ہو رہا ہوں
اور یہی میری جیت ہے کانئرو
تم میرے جسم کو تو لمبے جوتوں تلے دبا سکتے ہو
میرے الفاظ کا کیا کرو گے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔