لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4024 دن مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خاران سے ابوبکر بلوچ ، ابرار بلوچ اور دیگر نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ موجوده تحریک کو منظم ، وسیع، فعال اور طاقتور شکل دینے میں اعلی قیادت سے لیکر کارکن اور قبائلی سماجی متعبرین سے لیکر عام چروائے تک سب کا خون شامل ہے، حالیہ دنوں یعنی پندره سالوں کے عرصے میں قابض کو گمان تها کہ وه سفاکیت اور وحشت و دہشت سے بلوچ قوم کو غلامانہ شکنجے میں جکڑنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن بلوچ فرزندوں نے بهر پور پرامن جدوجہد کرتے ہوئے جس طرح اپنی جانوں کے نضرانہ دیا اس سے قابض قوتوں کا گمان اور تکبر ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا، اپنی قوم سے محبت اس کی عزت اور وقار کا دم پهیرنے والے ایسے بلوچ فرزندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو اس جرم کی پاداش میں نوآبادیاتی قوتوں کے لئے قابل گردن زنی قرار پائے اور انہیں شہید کردیا گیا ان عظیم سپوتوں کی اغواء شہادت نے قابض قوتوں کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا، ان رہنماوں کی جبری گمشدگی کی شہادت بلوچ نسل کشی نوآبادیاتی ریاستی پالیسی پرده آور کا گهناونا آغاز تهی، اس کے بعد اٹهاو مارو پهینکو کا وحشیانہ عمل تیز کر دیا گیا جو ہنوز جاری ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ خفیہ ریاستی اہلکاروں نے گن پوائنٹ پر لوگوں کو اغواء کرکے پهر عقوبت خانوں میں انہیں زیر حراست رکھ کر انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی لاشوں کو پهینک دیا، یہ شہادتیں دراصل قابض قوتوں کی طرف سے بلوچ کو ایک واضح پیغام تها کہ صرف بندوق نہیں بلکہ جو بلوچ اپنے قومی حق کے لئے پرامن جہموری طور پر بهی آواز اٹهائے گا اس کا بهی انجام ایسا ہی ہوگا۔