بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو 4018 دن مکمل ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پشتون تحفظ مومنٹ کوئٹہ کے کور کمیٹی کے ممبران اجمل پشتون، عبدالواب، علاوالدین پشتون سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے درجنوں شہریوں نے وی بی ایم پی کیمپ میں آکر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کی ایک پر امن جمہوری تحریک ہے جو پاکستانی آئین و عدلیہ پر مکمل یقین رکھتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ جو شخص خلاف آئین کوئی اقدام کرے اسے ملکی عدالتوں کے تحت گرفتار کرکے سزا دیا جائے مگر بدقسمتی سے پاکستانی آرمی و ایجنسیاں شہریوں کو اغواء کرکے پاکستانی آئین کو پامال کرکے ملکی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
ماما نے کہا کہ عید قریب ہے، اور ہر عید پر وی بی ایم پی ایک احتجاجی ریلی نکالتی ہے اور اس عید میں بھی ہم ایک احتجاجی ریلی نکالنے جارہے ہیں۔ عید کی خوشیاں بلوچوں کے لیے آنسووں کی دریا کی مانند ہیں۔ عید وہ دن ہے جس کے آنے سے گھروں میں چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے سب خوش ہوتے ہیں ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں لیکن پاکستان آرمی و خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کردہ بلوچ فرزندوں کے خاندان اس دن کو آنسووں، کرب اور انتظار میں گزارتے ہیں۔ ایک دائمی غم ہے کہ انکے پیارے کس حال میں ہیں۔ کہیں ان کے پیارے ان کو ایک مسخ شدہ لاش کی صورت میں نہ ملیں یا کوئی اجتماعی قبر میں دفن نہ ہوں، یہ ایک لامتناعی اور ناقابل بیان کرب ہے۔
ماما نےمزید کہا کہ بلوچستان میں طویل عرصے سے ایک وحشیانہ فوجی آپریشن جاری ہے۔ ہائے روز بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی وجہ سے بلوچ معاشرہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ بلوچ گھروں میں سوگ کا سماں ہے، فضا سوگوار ہے ہر آنکھ اشک بار ہے، بلوچستان جل رہا ہے، روز بروز پاکستان آرمی اپنے مظالم میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ کسی بھی معاشرے کا باعزت، قابل تکریم اور مہذب و ذمہ دار ترین پیشہ پڑھانے کا پیشہ یعنی اساتذہ ہوتے ہیں۔ مگر بلوچستان میں عام اساتذہ کا کیا گلا بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ حراسگی اسکینڈل کا رپورٹ دیکھ لیں جہاں یونیورسٹی عملہ خفیہ کیمروں سے جامعہ بلوچستان میں خفیہ اور نازیبا ویڈیوز بناتی ہیں اور ان ویڈیوز کو جامعہ بلوچستان کے سیکورٹی گارڈ یو ایس بی میں ڈال کر وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال تک پہنچاتا ہے اور وائس چانسلر باقی اسٹاف کے ساتھ بیٹھ کر یہ ویڈیو دیکھتا ہے اور پر ان ویڈیوز کے ذریعے ہمارے بیٹیوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توڑا تصور کیجئے کہ ایک وائس چانسلر اپنے بچیوں کے نازیبا ویڈیوز اپنے باقی اسٹاف کے ساتھ دیکھے اس سے زیادہ اخلاقی گراوٹ کا معیار کاہوسکتاہے؟
انہوں نے کہا آپ اس نظام کے وائس چانسلرز کا اخلاقی معیار یہ ہے تو اس نظام کے سیکورٹی فورسز کے کیا اخلاقی اقدارہونگے؟
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ سماج کو مزید تبائی سے بچانے اور بلوچوں کو پاکستانی ظلم و جبر سے بچانے کے لیے بلوچ دانشور، تعلیم یافتہ طبقے کو پاکستانی بربریت کے خوف سے نکل کر سامنے آکر آواز اٹھانا ہوگا وگر نہ پاکستانی آرمی و خفیہ ایجنسیاں جو کہ پاکستان کے اصل حاکم ہیں، اپنے ملاوں اور منشیات فروشوں پر مشتمل ڈیتھ اسکواڑ اور ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے برائے نام اساتذہ مگر اصل میں وحشیوں کے ذریعے بلوچ سماج کو گراوٹ کی آخری حد تک پہنچائیں گے ۔