کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4007 دن مکمل ہوگئے۔ نادر خان ایڈوکیٹ نے وکلاء برادری کے ساتھ کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ اس موقع پر لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، لاپتہ حزب اللہ قمبرانی کی بیوی نائلہ قمبرانی، لاپتہ حسان قمبرانی کے لواحقین سمیت دیگر افراد موجود تھے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم اس وقت لاشیں اٹھانے میں مصروف ہے، پوری مقامی آبادی تعزیت پر بیٹھی ہے، بلوچستان کی فضاء سوگوار ہے پہلے بلوچستان کے سینے کو چھیر پھاڑ کر معدنیات نکالے جاتے تھے اب لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کے سینوں سے جگر، دل اور گردوں کو نکال کر لوٹ لیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں وہاں زندگی معمول پر نہیں ہوتی، جہاں جنازے پڑھائے جاتے ہیں وہاں ڈھول اور ناچ نہیں ہوتی ہے، جہاں لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں وہاں پھولوں کے ہار نہیں ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، وہ کونسا بدبخت اپنے شہیدوں کے لہو کو روندتا ہوا پارلیمنٹ تک جائیگا۔ وہ کونسا وطن کا باسی ہوگا جو دوسروں کو بچانے کی خاطر بلوچستان کو خون میں نہا دے گا۔
طالب طالب علم شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کا کیا گناہ ہے کہ وہ چار سالوں سے جبری طور پر لاپتہ رکھا گیا ہے۔ میرے بھائی کو پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا لیکن پولیس نے ایف آئی آر میں فرنٹیئر کور کو نامزد کرنے کی بجائے نامعلوم افراد کے خلاف درج کی۔
سیما بلوچ کا کہنا تھا بھائی کے بازیابی کے لیے میں نے پریس کانفرنس کی، احتجاج کیا، بھوک ہڑتالی کیمپوں میں بیٹھی مگر شبیر کے حوالے سے تاحال انصاف کے منتظر ہے۔
کوئٹہ سے لاپتہ حزب اللہ قمبرانی کی زوجہ نائلہ قمبرانی اور حسان قمبرانی کے لواحقین نے حکام بالا سے ان کے بازیابی کے لیے اپیل کی۔