بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4006 دن مکمل ہوگئے۔ میر داد بلوچ، خان محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ حزب اللہ قمبرانی کی بیوی نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے شوہر حزب اللہ قمبرانی کو کزن حسان قمبرانی کے ہمراہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 14 فروری 2020 کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ کہی مہینے سے ہم احتجاج کررہے ہیں لیکن ہمیں انصاف نہیں مل رہی ہے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی بلوچ غیرت مند مائیں، بہنیں زمینی خداوں کے بوٹوں تلے تشدد سہہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ظلم انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ پوری دنیا میں انسانیت کو روندا جارہا ہے، ہر آنکھ اشکبار ہے جس آنکھ سے میں ظلم اور مسخ شدہ لاشوں کو دیکھتا ہوں اس آنکھ کے اب آنسو خشک ہوچکے ہیں۔ اجتماعی قبروں کا ملنا، قبرستان آباد اور بازاریں ویران ہورہے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ اجتماعی قبروں کا ملنا اس دور جدید میں انسان دوست معاشروں کیلئے ناقابل یقین بات ہے مگر بلوچستان میں کوئی نئی بات نہیں، لوگوں کو زندہ جلانا، مہذب دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کا مارکیٹ لگایا گیا ہے، بلوچ کو مارنے کی قیمت لگی ہے جو زیادہ بلوچ مارے گا اس کی ریٹ زیادہ بن جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خوف کا ماحول ہے، ہرطرف گہری خاموشی ہے۔ فضا سوگوار ہے مگر جو مفادات کی سیاست کے حامی ہیں وہ اس درد سے مانوس دکھائی دیتے ہیں۔