عید کی خوشیاں یا آنسووں کی دریا، عید کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ جبری لاپتہ کیئے جانیوالوں کی فہرست بھی طویل ہوتی جارہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سالوں سے لاپتہ ہے، اب تک ہزاروں سے زیادہ مسخ شدہ لاشیں بلوچ قوم کو مل چکی ہے تو بلوچ عید کیسے منائے گی۔ ان خیالات کا اظہار وی بی ایم کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کے لیے احتجاجی کیمپ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کیا۔
دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4019 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی و سماجی کارکن عبدالرزاق بلوچ، رسول بخش اور دیگر خواتین نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ اس مرتبہ بلوچستان میں عید منانے والوں کی تعداد بہت کم ہوگی، پھر بھی جو خاندان آج اپنے بچوں کے ساتھ عید منارہے ہیں تو وہ ایک لمحے کے لیے ان بچوں کا بھی سوچنا چاہیے جو پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ گھر کے چوکٹ پر کھڑے اپنے والد کا انتظار کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج خواتین رسم عید ادا کررہی ہے انہیں ان خواتین کا خیال رکھنا چاہیے جو آج عید کے دن پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ سجائے بیٹھے اپنے پیاروں کی بازیابی کی راہ دیکھ رہے ہیں، نوجوان ان ہزاروں لاپتہ افراد کا خیال رکھیں جو عید کے دن اذیتیں برداشت کررہی ہے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء نے کہا کہ ہر سال کی طرح اس عید کو بھی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرینگے۔
ماما قدیر نے کہا کہ عید کے روز چار بجے احتجاجی ریلی نکالی جائے گی اور مظاہرہ کیا جائے گا۔