کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

121

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4016 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سی سی ممبر نیاز محمد بلوچ، ملک نصیر احمد شاہوانی اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2019 کا سال بلوچ فرزندوں کی شہادت، اغواء، اجتماعی قبروں، مسخ شدہ لاشوں، آبادیوں پر بمباری، خواتین اور بچوں کو لاپتہ کرنے کی تاریخ رقم کرگئی جبکہ رواں سال بھی بلوچ قوم کے لیے خونی ثابت ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر دور میں قابض نے محکوم اقوام کو اپنی زیر حراست رکھنے کے لیے جبر کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح اس خطے میں بلوچ قوم جو اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہر پلیٹ فارم پر کوشاں ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم کو داخلی طور پر کمزور کرنے اور پرامن جدوجہد کرنے والوں کو زیر کرنے کیلئے علاقائی سطح پر اپنے خاص لوگوں کو چنا اور ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیئے جن کے ذریعے ہزاروں افراد آج تک لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غلامی، محکومی کی ذہنی قبولیت کے لیے تعلیمی ، ادبی اور ثقافتی سمیت پروپیگنڈہ کے مختلف ذرائع کو وسیع پیمانے پر بروئے کار لایا گیا۔