چین – ایران معاہدہ اور بلوچستان
ٹی بی پی اداریہ
گذشتہ ہفتے 18 صفحوں پر مشتمل ایک مسودہ ایرانی ذرائع ابلاغ پر گردش کررہی تھی، نیویارک ٹائمز نے بھی ایک مضمون شائع کرکے مذکورہ مسودے کو ایران و چین کے بیچ طے پانے والا معاہدہ قرار دیا۔ مسودے کے مطابق آنے والے 25 سالوں کے دوران چین ایران میں 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریگی، جبکہ بدلے میں ایران چین کو سستے داموں تیل مہیا کریگا۔
مذکورہ پیش کردہ معاہدے کے رو سے چین بینکنگ، ٹیلی کام، پورٹس، ریلوے اور ایرانی فوج میں بھی سرمایہ کاری کریگی۔ مذکورہ ہمہ گیر اسٹرٹیجک تعاون کے تحت دونوں ممالک انٹیلجنس معلومات کا تبادلہ اور مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرینگی۔ اپنی نوعیت کا یہ معاہدہ نیا نہیں ہے، چین کی ایران میں دلچسپیوں کا تسلسل کافی وقت سے واضح تھا۔ چین اس سے پہلے بھی ایران میں سرمایہ کاری کرچکا ہے لیکن وہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے سست رفتاری کا شکار ہوگئے۔
مختلف ذرائع کے مطابق، چین مذکورہ معاہدہ پہلے بھی 2016 میں ایران کو پیش کرچکا تھا، لیکن اوبامہ دور حکومت میں ایران کو امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی کہ انکے تعلقات امریکہ سے بحال ہوجائینگے، جب امریکہ نے ایران پر کچھ پابندیاں ختم کردیں تھیں اور دونوں ممالک کے مابین ایک جوھری معاہدے پر دستخط ہوا تھا۔ اسی بنیادپر ایران چین کے ساتھ ایک باضابطہ معاہدہ کرنے سے کترا رہا تھا، اور اسی سال ایران نے بھارت کے ساتھ مختلف معاہدات پر دستخط کیئے۔ لیکن ایران بابت ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں نےایران کوچین کے ساتھ باضابط طویل المدتی معاہدات پر دستخط کرنے پر راغب کیا۔
جہاں تک انڈیا کو چاہبار- زاہدان ریلوے پروجیکٹ سے نکالنے کی گردش کرتی خبروں کا تعلق ہے، وہ تمام جعلی نکلیں۔ ایران نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے پروجیکٹ پر انکا کبھی انڈیا کے ساتھ کوئی باقاعدہ معاہدہ طے نہیں ہوا تھا، محض ایک “ایم او یو” مفاہمت کی یاداشت پر دستخط ہوئے تھے۔ وہ اب انڈیا سے فنڈز میں تاخیر کے باعث اس ریلوے لائن کی تعمیر خود کریں گے۔ ایران اس ریلوے لائن پر 2011 سے کام کررہا ہے، حال ہی میں روس کی جانب سے ایران کو 5 بیلین ڈالر کے قرضوں کے حصول کے بعد اب ایرانی حکومت پرامید ہے کہ یہ پروجیکٹ 2022 تک مکمل ہوجائیگی کیونکہ ایران اپنے قومی ترقیاتی فنڈ سے اس پروجیکٹ پر 300 ملین ڈالر خرچ کررہا ہے۔
تاہم انڈیا بدستور چاہبار پورٹ کو چلاتی رہیگی، چاہبار – زاہدان ریلوے ٹریک کا فائدہ بلا واستہ انڈیا کو ہی پہنچے گا۔ چین کی ایران میں موجودگی لازماً بھارتی مفادات کے سامنے ایک رکاوٹ ثابت ہوگی کیونکہ چین پہلے سے ہی انڈیا کے گرد اس طرز کے پورٹس کا جال بچھا چکا ہے۔ اس معاہدے سے یقیناً چین کیلئے مشرق وسطیٰ کے دروازے مزید کھل جائینگے اور وہ خطے میں جاری کھیل کا ایک مضبوط کھلاڑی بن جائیگا۔ تاریخ میں پہلی بار چین دنیا کے سات اہم ” چوک پوائینٹس” میں سے ایک (آبنائے ہرمز) پر باقاعدہ بیٹھ جائے گا۔
یہاں انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ ان سارے معاہدات سے بلوچ اور بلوچستان پر کیا فرق پڑیگا؟ چین کی بلوچستان یا گردونواح میں موجودگی کبھی بھی بلوچوں کیلئے اچھی خبر ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس معاہدے سے چین کا ایران پر اثرورسوخ میں اضافہ ہوجائیگا اور یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ مشرقی بلوچستان کی طرح وہ مغربی بلوچستان کے وسائل پر بھی پنجہ آزمائی کریگا۔
ایک طرف گوادر پورٹ پہلے سے ہی چین کے کنٹرول میں ہے، یہ گمان رد نہیں کیا جاسکتا کہ چین چابہار پورٹ کو بھی اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کریگا۔ یہ دونوں پورٹ بلوچ زمین پر واقع ہیں۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ محض ایک بری منصوبہ نہیں بلکہ چین جنوبی ایشیاء، مشرق بعید، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اہم بندرگاہوں پر کنٹرول حاصل کرکے، ایک ” سمندری سلک روٹ ” قائم کرنا چاہتا ہے۔
مغربی بلوچستان ہو یا مشرقی بلوچستان، یہاں جتنے بھی چینی مفادات کی تعمیر ہوگی، ان کے تحفظ کیلئے یہاں چین کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہوتی جائیگی، اور اس خطے میں اگر کوئی باقاعدہ چین کے خلاف مزاحمت کررہا ہے، تو وہ بلوچ ہی ہے کیونکہ وہ چین کی موجودگی کواپنے قومی مفادات کے برخلاف سمجھتے ہیں۔
مشرقی بلوچستان میں بلوچ مزاحمتی تنظیمیں جیسے کہ بی ایل اے متعدد بار چینی مفادات کو نشانہ بناچکا ہے، مغربی بلوچستان میں بھی بلوچ قومی عصبیت اور آزادی کیلئے یکساں جذبات پائے جاتے ہیں۔ چین کی خطے میں یہ نئی موجودگی، چین و بلوچ کے مابین ایک نئے تنازعے کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔