وہ جو قربان مزاحمت پر ہوئے – خالدہ بلوچ

362

وہ جو قربان مزاحمت پر ہوئے

تحریر : خالدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بقول ہینری فارڈ “اچھے لوگ موم بتی کی طرح ہوتے ہیں، جو دوسروں کو روشنی دینے کے لئے خود کو جلا لیتے ہیں” بالکل اِسی طرح اساتذہ کسی بھی قوم کا بنیادی اثاثہ ہوتے ہیں، جو اپنے قوم کو علم کی روشنی سے آشنا کرنے کی ہرممکن کاوشیں کرتیں ہیں یہاں تک کہ کبھی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اپنی قوم کو زیست کے بنیادی حقائق سے آگاہ کرنا، انہیں بظاہر اور چھپے افعال میں درپردہ وجوہات سے روشناس کرانا، صحیح غلط میں تفریق، اپنے حقوق کے لئے لڑنا جیسے سبق دینے کو وہ اپنا فریضہ سمجھ کر مخلصی و ایمانداری سے نبھاتے ہیں۔ اپنے حقوق ، فرائض اور زمہ داریوں سے لوگوں کو واقف کرنا اُنکا کام ہے۔ بالخصوص نوجوانوں کو ایک حیقیقی زندگی دینے پر پوری توانائی خرچ کردیتے ہیں ، اگر نوجوان مستقبل کے ستارے ہیں تو اُنہیں چمکنے کا ہنر بھی اساتذہ سے حاصل ہے۔

جسطرح اچھے خوراک سے صحت بنتی ہے ویسے ہی تعلیم سے زندگی بنتی ہے ۔ تعلیم کی دی ہوئی روشنی سے مراد آپ میں وہ صلاحیتیں ہیں “جو صحیح اور غلط میں تفریق کراتی ہیں ، سماج میں رونما ہونے والے مسائل کن کی پیدا کردہ ہیں ، اُن کے پیچھے وجوہات کیا ہوسکتی ہیں ؟ لوگوں کی زندگیوں پر ان کی کیا اثرات مرتب ہونگے ؟ اُن کا حل کیا ہوگا , کیسے ہوگا ؟” جیسے سوالات پوچھنے کی عنصر کو جگاتا ہے۔ تعلیم آپ کو وہ دماغی اہلیت بخشتا ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کبھی کسی دشمن کے نقصاندہ پالیسیوں کے جھانسے میں نہیں آتا ، ورنہ تعلیم سے دوری اندھی تقلید کا سبب بنتی ہے جو دشمن کو ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر کام آتا ہے ۔

کہتے ہیں کہ اگر کسی قوم پر غالب آنا ہو تو سب سے پہلے وہاں تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دو ، تاکہ لوگ اِس قابل نہ رہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرسکیں ، اپنے وجود سے منسلک کسی حقیقت تک ہمکنار ہوسکیں، تاکہ اُنہیں آمر حکمران جیسے چاہے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکیں۔ آج جس قدر تعلیم سے منسلک مسائل ہمیں درپیش ہیں اِنہی خیالات کا عکاسی کرتی ہیں۔ نہ ہمارے ہاں ضرورت کے جتنا ادارے ہیں، نہ اچھی پڑھائی اور جتنے اساتذہ تعلیم کو روکنے کی غرض سے مارے گئے ہیں ، واضح کرتے ہیں کہ ہمیں تعلیم سے دور رکھنا ایک حادثہ تو نہیں ہاں مگر ہمیشہ سے دانستہ حکمت عملی رہی ہے۔

آج سے تقریباً دس بارہ سال پہلے کہ بات ہے کہ خستہ حال خضدار کی قسمت تب بدلی جب پروفیسر عبدالرزاق نام کے ایک قومی سوچ و افکار کے مالک نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قوم کے غافل , تعلیم سے دور نوجوانوں کے لئے ایک تعلیمی ادارہ “نیشنل سائنس اکیڈمی” کی بنیاد رکھی جہاں نوہم جماعت سے FSc/FA تک، علاوہ ازیں میڈیکل اینڈ انجینئرنگ اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کروائی جاتی تھی۔ تعلیمی معیار اس قدر انمول رہا کہ چند سالوں میں ہی طلباء کی تعداد بڑھنے لگی , نوجوانوں میں شعور جاگ اٹھا اور یوں اکیڈمی شہرت حاصل کرگیا۔ یہاں محنت نہ صرف طلباء کی جانب سے ہوا کرتی تھی بلکہ اساتذہ دو گنا زیادہ محنت میں لگے ہوتے تھے ۔ پہلی بار کسی ادارے کی بنیاد محض قومی فکر پر تھی جہاں تعلیم کے نام پر پیسے کا کاروبار چلانا بالکل بھی نہیں تھا۔ شاید اس لئے پروفیسر ہمیشہ کلاسز کے چکر کاٹتے رہتے تھے کہ آیا لیکچرز ہورہے ہیں یا نہیں ، کہیں کوئی پریشانی مسئلہ ہے یا نہیں ، طلباء کا اتنا خیال رکھا جاتا کہ انہيں محض وہیں اساتذہ پڑھاتے جن کا انہيں سمجھ آجاتا تھا، تاکہ وہ یہاں سے خالی دماغ نہیں بلکہ بہت کچھ سیکھ کر جائیں۔ انہوں نے کبھی کسی طالبعلم کی مالی حیثیت کو اُن کے تعلیم کے بیچ رکاوٹ بننے نہیں دی، پڑھائی کے شوقین مگر فیس کی گنجائش نہ رکھنے والوں کو پوری معاونت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ طلباء بھی روح کی مانند پروفیسر سے جڑے ہوئے تھے۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرکے جو بھی نکلا وہ تقریباً کامیاب ہی رہا۔ ہماری کامیابی کے پیچھے ہماری اور ہمارے اساتذہ دونوں کی محنت شامل ہوا کرتی تھی۔

کبھی کبھی فرصت کے لمحوں میں پروفیسر ہم سے ہمکلام ہوتے تو کہتے تھے کہ “تم لوگ تعلیمی حوالے سے کسی کھائی میں گِرے پڑے ہو اور میں تم لوگوں کو اُس کھائی سے نکالنے کی کوشش کررہا ہوں، بس تم لوگ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دو اور خوب محنت کرو۔”

وقت گزرتا گیا مگر ایک جیسے نہ رہا۔ نجانے ہم نے سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ تعلیم کا یہ سلسلہ مدام جاری رہے گا، لوگوں کی زندگیاں سنور جائیں گی اور ہماری خوشی صدا رہے گی۔

بالعموم پروفیسر ہمارے کلاس میں ہم سے ہمکلام تھے کہ چوکیدار ان سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ گیٹ پر کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں اور وہ چلے گئے ۔ لیکچرز ختم ہونے کے بعد واپسی پر وہ پھر ہمارے ہاں آکر کھڑے ہوئے ۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ دوسری مرتبہ ہے کچھ مسلح افراد آکر مجھے اکیڈمی بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ پروفیسر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ایک لمحے کے لئے سوچوں میں ڈوب گئی کہ آخر تعلیم کو کوئی کیوں روکنا چاہتا ہے، تعلیم سے کسی کا نقصان تو نہیں ہوتا، اس ادارے میں ہمیں تعلیم دی جاتی ہے ، کوئی منشیات کا کاروبار یا غیرقانونی جرائم تو نہیں ہوتے جو اِسے بند کرنے کا کہہ رہے ہیں، اُس وقت عمر اتنی تھی نہیں کہ میں تعلیم دشمنوں کی پالیسیوں کو سمجھ پاتی۔ چہرے پر پریشانی کے تاثرات لئے ایک لڑکی پوچھنے لگی “تو سر اب کیا ہوگا ؟ آپ اکیڈمی بند کردینگے ؟” ، وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ نہیں ، وہ آتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں کہ آپ لوگ چلے جائیں میں بند کردونگا، لیکن میں بند نہیں کرونگا۔ کیونکہ تعلیم ہمارا حق ہے اور انہیں جو کرنا ہے وہ کرسکتے ہیں ۔

پروفیسر کے چہرے پر ہم نے زرا بھی خوف نہیں دیکھا، وہ اِن باتوں کا بھی مسکراتے ہوئے ہی تذکرہ کررہے تھے, البتہ ہم خود فکرمند ہوئے کیونکہ سکولز کی پڑھائی سے ہم نے کچھ سیکھا ہی نہیں تھا، اکیڈمی واحد سہارا تھا ، اور پھر ہمیں پتہ تھا کہ دھمکیوں کا نتیجہ ضرور ہمارے حق میں کچھ برا ہوگا، کہیں وہ پروفیسر کو کچھ کر نہ دیں۔ وہ تو مسلح لوگ تھے اور ہمارے پاس آخر تھا ہی کیا؟ پروفیسر اب ہمیں سرگرداں دیکھ کر مختلف اقوام کی مزاحمتوں کی مثالیں پیش کرنے لگے تاکہ ہم لوگ ہمت رکھ سکے ، کہنے لگے کہ اپنے حق کے لئے ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کرو مزاحمت کرو، کیا ہوا اگر اُن کے پاس بندوقیں ہیں ، مزاحمت کے لئے ہمت چاہیے ہوتی ہے نہ کہ ہتھیار , تمھارے پاس اگر ہتھیار نہیں تو کم از کم کوئی پتھر ہی اٹھا مارو اُنہیں , یہ بھی مزاحمت ہے ۔ لیکن بات جہاں تمھارے حق کی ہو وہاں خاموش نہ رہو چاہے کچھ بھی ہو۔

وہ تعلیم دشمن عناصر کے آگے جھکے نہیں اور بالآخر گیارہ جولائی دوہزار تیرہ(11/07/2013) کو رمضان شریف کے پہلے دن افطاری کے وقت شہید کر دیئے گئے۔ دشمن نے ایک بار پھر کسی مفکر کو محض جسمانی طور پر ہم سے چھین کر اپنے جیت کی خوشی منائی ہوگی۔ لیکن پروفیسر کی شہادت نے جیسے پورے خضدار کو یتیم کردیا ، چاروں اطراف بس اداسی ہی اداسی تھی۔ وہ محض ایک استاد ہی تو نہیں تھا، اُنہوں نے قوم کے بچوں کو ایک باپ کی طرح محبت کی ، ہرطرح سے خیال رکھا اور آج قوم کے اِنہی بچوں کی مستقبل ، اُن کے تعلیم کے لئے مزاحمت پر زندگی بھی قربان کردی۔

ادارہ کچھ مہینوں بند رہا اور ہم سمجھے کہ دشمن واقعی میں جیت ہی گیا , مگر ہم غلط تھے کیونکہ پروفیسر کے نظریاتی رفیق اب بھی ہمارے بیچ موجود تھے جنہوں نے ادارہ پھر سے کھول کر دشمن کے منہ پر ہار کا چاٹا مارا۔ ہم نے پروفیسر کو کھودیا مگر اُن کی کہی باتیں اور ان کا نظریہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے ۔

بندوق چلانے والے کو لگتا ہے کہ جس انسان کی ارتقائی سوچ و فکر سے وہ سرگرداں ہے اُسے مار کر کامیاب ہوگیا ۔ وہ بھول جاتا ہے کہ غروبِ آفتاب پہ ہی بات ختم نہیں ہوتی ، وہ سورج تو ڈوبنے سے قبل ہی اپنی توانائی دنیا کو فراہم کر چکی ہوتی ہے ۔ جس انسان کا تم نے قتل کیا وہ مرنے سے پہلے ہی اپنی سوچ لوگوں میں منتقل کرچکا ، تو کیا تم اب اُن تمام لوگوں کو ڈھونڈ سکتے ہو ؟ مار سکتے ہو ؟ ختم کرسکتے ہو ؟

ہرگز نہیں! جس مقصد سے تم نے انسانیت کا خون کیا ، وہ تو پورا ہی نہیں ہوا ۔ پھر تم جشن کس چیز کی مناتے ہو ؟ تم کیسے اور کیونکر جیتے ؟

تمھاری جیت تب ہوگی جب تم اُس سوچ کو مٹا سکو جس کے ہونے کا تمھیں غم ہے۔ ہاں مگر مزاحمت تو ایسا فکر ہے جو نہ کل مٹا تھا ، نہ آج اور نہ آنے والے کل مٹے گا۔ جب جہاں لوگوں کے حقوق کی استحصالی ہوگی تب تب تمھیں مزاحمت کا سامنا ہوگا ، یعنی تم گولیاں چلاتے چلاتے آخر تھک جاؤگے ، لیکن کامیابی سے کبھی ہمکنار نہیں ہوگے ۔ کیونکہ تم سوچ نہیں مٹا سکتے۔

نہ صرف پروفیسر بلکہ ہزاروں اساتذہ تعلیم دینے کی پاداش میں مارے گئے ، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اپنے قوم پر پروفیسر جیسے بےشمار لوگ خود کو قربان کرگئے مگر ہار کبھی نہیں مانا ۔ ہمارے رویوں میں اپنے حقوق کے لئے مزاحمت انکا دیا ہوا سبق ہے جو ہمارے اعمال میں ہمیشہ نمودار ہوگا ۔ ہمارے تعلیم کا حصول ہی دشمن کی ہار اور ہمارے اساتذہ کی جیت ہوگی ۔ اور یقیناً ہم نے تعلیم کا دامن پکڑ کے پروفیسر کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔