لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ کی بھوک ہڑتالی کیمپ میں آج پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ میں سیما بلوچ، اپنے بھائی شبیر بلوچ کی بازیابی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہو، کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے درد و کرب بھری داستان سناتی دکھائی دیتی ہو تو کبھی کوئٹہ و اسلام آباد کے صحافیوں کو اپنے خاندان کی تکالیف بھری زندگی کی روداد سناتی ہو۔ کبھی عدالتوں میں اور کبھی اعلیٰ حکام کے سامنے اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے التجا کرکے دکھائی دیتی ہو لیکن آج ساڑھے تین سال تک ہمیں صرف جھوٹی تسلیاں دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انصاف آج تک نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ایک بھائی، ایک شوہر اور والد کو کھونے کا درد کیا ہوتا ہے یہ وہی محسوس کرتا ہے جسکے اپنے بغیر کسی گناہ کے لاپتہ کئے جاتے ہیں اور چار چار سال کال کوٹھریوں میں غیر انسانی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا پورا خاندان ایک درد بھری، تکلیف دہ اور انتظار بھری لمحات میں زندگی گزارنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا ہر فرد اس تکلیف کا شکار ہے، سمی، مہلب، حسیبہ، زرینہ اور کئی ایسے دختر اور فرزند اپنے پیاروں کی راہیں تک کر انتظار کررہی ہوتی ہے لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا، ملتی ہے صرف جھوٹی تسلی اور درد و الم اس کے سوا انکے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔
سیما کا کہنا تھا میرے بھائی شبیر بلوچ کو چار اکتوبر دو ہزار سولہ کو تربت گورکوپ سے انکی اہلیہ زرینہ بلوچ اور علاقے کے عوام کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ آج شبیر بلوچ کو اغوا ہوئے ساڑھے تین سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کو منظر عام پہ نہیں لایا جارہا جو ہمارے لئے اذیت کا باعث ہے۔ ہم ہر احتجاج، پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ شبیر بلوچ کو منظر عام پہ لاکر آئین و قانون کے مطابق کاروائی کریں، اگر شبیر بلوچ مجرم پایا گیا تو اسے قانون کے مطابق سزا دیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن یوں قانون و آئین کی خلاف ورزی کرکے لوگوں کو لاپتہ کرنا اور آئین و قانون کے برعکس لاپتہ افراد کو سالوں عدالتوں میں پیش نہ کرنا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب کی یقین دہانی کے باوجود ہمارے بھائی کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور ہمیں یہ کہا گیا کہ آپ احتجاج ختم کردیں اور گھر چلے جائیں آپکے بھائی کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن آج تک ہمارے بھائی کی شکل و صورت ہمیں نہ دکھائی گئی بس جھوٹی تسلیاں دیکر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
سیما کا کہنا تھا میں سیما بلوچ اس پریس کانفرنس کی توسط سے وزیر اعظم پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر اعلیٰ اداروں سے اپیل کرتی ہو کہ شبیر بلوچ کو منظر عام پہ لایا جائے، اگر وہ زندہ ہے تو ہماری ملاقات کرائی جائے اور اگر اسے مار دیا ہے تو بھی ہمیں بتادیا جائے، یوں ہمیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور نہ کیا جائے۔