نیا پاکستان اور اسکا مستقبل – بختیار رحیم بلوچ

391

نیا پاکستان اور اسکا مستقبل

بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا، اسکے چار وزیر تھے ۔ تین وزیر بہت بے انصاف اور مکار تھے، وہ سارا دن بادشاہ کے محفل میں بیٹھ کر بادشاہ کی تعریف کرتے تھے۔ بادشاہ ان سے بہت حوش تھا، ان میں سے ایک وزیر جو بادشاہ کی تعریف نہیں کرتا تھا بس اپنے کام سے کام رکھ کر زندگی گزارتا تھا۔ بادشاہ کا ملک اور سلطنت تباہی کی طرف جارہا تھا، ہر طرف کُشت و خون، ناانصافی ، جھوٹ، چوری راہزنی کا ماحول تھا۔

ایک دن بادشاہ نے اپنے چاروں وزراء کو اپنے محفل میں بلایا کر پوچھا کہ آپ لوگ بتا دو میرے بادشاہی کا اور میرے ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔ چاروں وزراء بادشاہ کی اس بات پر حیران ہوگئے تینوں چاپلوس اور مکار وزیروں نے کہا آپ کے علاقے میں ایک بوڑھا مالدار رہتا ھے اس کو آپ کی بادشاہی اور ملک کی مستقبل کا علم ہوگا، بادشاہ نے وزرا کے بات پر یقین رکھ کر اس بوڑھے مالدار کو بلا لیا اور اس سے پوچھا میرے ملک اور بادشاہی کی مستقبل کیا ہو گا؟ بوڑھا شخص بادشاہ کی اس بات پر حیران ہوا اورکہا بادشاہ سلامت میں ایک چرواہا ہوں میرے پاس ایسی کوئی علم نہیں کہ میں آپ کی ملک اور بادشاہی کی مستقبل سے آپ کو آگاہ کر دوں ۔ باشاہ وزراء پر غصہ ہوا اور کہا میں آپ لوگوں کو کیا چرواہا بلانے کا کہا تھا ؟ تینوں مکار وزراء ایک زبان ہوکر کہنا شروع ہو ئے، بادشاہ سلامت اسے معلوم ھے یہ آپ کو نہیں بتا رہا۔ بوڑھا مالدار حیران اور پریشان تھا کہ بادشاہ کے وزیروں کو مجھ سے کیا دشمنی- بادشاہ بوڑھے کو منتیں کرنے لگا اور بوڑھا اپنی بے علِمی کا قسم کھاتا رہا۔ کافی دیر بعد بادشاہ نے بوڑھے سے کہا اگر آپ کو پتہ نہیں آپ کو حضرت خضر کے ساتھ ایک ہفتے کے بعد میرے دربار میں حاضر ہونا ھے ۔ بے چارہ بوڑھے نے کہا بادشاہ سلامت حضرت خضر علیہ سلام اللہ کا فرشتہ ھے وہ اس دنیا میں مجھے کہاں ملے گا کہ میں اسے ساتھ لے کر آپ کے دربار میں پیش ہو جاؤ ۔ بادشاہ اپنے چاپلوس مکار وزیروں کے باتوں میں آیا تھا اب اسے بھلا سمجھانے والا کون تھا کہ اسے سمجھاکر بے چارہ مالدار کی جان بچالیں۔ بادشاہ ضد اور غصہ میں آکر مالدار کو اجازت دیا اور ایک ہفتے تک حضرت خضر کے ساتھ حاضر ہونے کا مہلت دی ۔

چرواہا گھر جاکر بادشاہ کے مکار وزراء کی کہانی اپنے گھر والوں کو بتا دیا گھر کے سارے افراد وزراء کی اس مکار سازش سے پریشان تھے ۔ ہفتہ پورا ہوگیا ۔ بوڑھا مالدار بھی ہمت مرد مدد خدا دل میں کہہ کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا بادشاہ اسکے وزیر مشیر سب آکر حاضر ہوئے اسی دوران ایک بزرگ آکر بادشاہ کے محفل میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ بادشاہ چرواہے کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے میرے بادشاہی اور ملک کا مستقبل نہیں بتایا، اپنے ضد پر ڈٹے رہے ۔ پھر آج میں نے آپ کو حضرت خضر کے ساتھ حاضر ہونے کا کہا تھا آپ پھر بھی اکیلے حاضر ہوے ۔ بے چارہ بوڑھا رو رو کر گڑ گڑا کر کہتا رہا بادشاہ صاحب میں نے کوئی ضد نہیں کیا ھے، مجھے علم نہیں اور خضراللہ کا ایک فرشتہ ہے میں اسے دیکھا ہی نہیں ھے۔ بادشاہ نے فیصلہ اپنے ان چاروں وزیروں پر چھوڑا کہ وہ اسے کیا سزا دینا چاہتے ہیں۔

بادشاہ کا پہلا وزیر بادشاہ سے مخاطب ہوا بادشاہ اسکا سزا یہ ہے اسکا گلا قینچی سے کاٹ دیں۔ یہ اسکی سزا ھے ۔ وزیر کا فیصلہ سن کر بیٹھے ہوئے بزگ نے کہا واہ بھئ واہ واقعی آپ اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں، آپ کی حسب نسب عادت آپ کے باپ دادا کی طرح ھے ۔ آپ اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں۔
۔
دوسرے وزیر نے کہا بادشاہ میں کہتا ہوں اسکے سر اور بدن کو ڈرل سے سراخ کر دینا چائیے ۔ یہ اسکا سزا ھے۔ یہ وزیر کا فیصلہ بھی بزرگ نے سن کر یہی کہا واہ بھئی واہ آپ بھی اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں، آپ کا حسب نسب عادت میں کچھ فرق نہیں۔

۔تیسرا وزیر فیصلہ فرماتے ہوئے بولا بادشاہ سلامت میں کہتا ہے اسے زندہ جلا دیا جائے۔ اس وزیر کا فیصلہ بزرگ نے سن کر کہا کہ آپ واقعی حسب نسب عادت میں اپنے باپ دادا کی طرح ھیں۔
۔
بادشاہ اپنا چہرہ اپنے ہر وقت خاموش وزیر کی طرف کرکے پوچھا۔ اس نے کہا بادشاہ صاحب میں سمجھتا ہوں یہ ایک غریب اور بوڑھا چرواہا ہے کچھ بھیڑ بکری پال کر اپنے بچوں کی روزی روٹی کا گزر بسر کر رہا ہے۔ اسے باعزت رہا کرنا چائیے ۔ اس وزیر کا فیصلہ سن کر بزگ نے یہی کہا واقعی آپ بھی اپنے اپنے باپ داداؤں کی طرح ھیں۔ آپ کے عادت اور حسب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

آخر باشاہ نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ میرے ہر وزیر کو یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ آپ اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں۔

بزرگ نے کہا باشاہ آپ کے سب وزرا اپنے اپنے والدیں کے حقیقی اولاد ہیں ۔ اسے لیے میں بھی یہی کہتا رہا۔ واقعی آپ اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں، بادشاہ نے بزرگ سے پوچھا آپ کو کیسے پتہ کہ میرے وزیر اپنے باپ کے حقیقی اولاد ہیں۔ بزرگ نے کہا کہ باشاہ سلامت آپ کے پہلے وزیر نے کہا تھا کہ اسکا گلا قینچی سے کاٹیں، وہ اپنی جگہ میں صحیح ھے غلط آپ ھیں کہ آپ نے اسے وزیر بنایا ھے وہ نسلاً نائی ہے اسکے باپ دادا بال کاٹنے کا کام کرتے تھے جو آج آپکا وزیر ھے ظاہر ھے اسکا فیصلہ یہی ہوگا اسے انسان کی جان و مال کا پتہ نہیں کہ کتنا قیمتی ھے۔ اسکے ساتھ کیسے انصاف کرنا چائیے

آپ کے دوسرے وزیر نے فیصلہ صادرکیا تھا کہ اسکا سر قلم کردینگے، وہ اپنی جگہ میں صحیح ھے یہ نسلاً قصائی ہے ۔اسے یہ نہیں پتہ کہ انسان اشرف المخلوقات ھے اسکا فیصلہ کس طرح کرنا چائیے ۔ یہ آپکی غلطی ھے آپ اس سے پوچھ کر لوگوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آپکے تیسرے وزیر نے کہا تھا اسے زندہ جلا دینگے۔ یہ نسلاً لوھار ہے اسکے باپ دادا لوھار کا کام کرتے تھے۔

آپکے چوتھے وزیر نے کہا تھا کہ اسے معاف کیا جائے، یہ ایک بے گناہ چرواہا ہے، اسے ایسا کوئی علم نہیں آپکا یہ وزیر نسلاَ وزیر قانون ہے، اسکے باپ دادا بھی وزیر تھے، ہمیشہ انصاف سے فیصلہ صادر کرتا ھے۔ آخر میں بزرگ نے کہا کہ بادشاہ صاحب آپ کی عقل اور وزیر یہ ھیں ملک ان لوگوں کی باتوں پر چلاتے رہے ہیں ۔ آپ کی حکمرانی اور ملک کا مستقبل یہی رہے گا۔

پاکستانی عوام بھی گذشتہ کئی دہائیوں سے نائیوں، قصائیوں، لوہاروں کے ہاتھوں میں پستا ہوا آرہا ھے، آج پاکستان میں جس کے ہاتھ ہتھوڑی ہے اسے ہر چیز کیل نظر آرہا ھے ۔ جب تک پاکستان ان نائیوں، قصائیوں، لوہاروں کے ہاتھوں سے چل رھا ھے ۔غریبوں، بے روزگاروں، یتیموں، مظلوم پر رحم اور انصاف نہیں ہوگا۔ نیا پاکستان کا دعویٰ محض عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔انصاف برابر کرو ہر چیز خود بہ خود برابر ہو جائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔