مُزاحمت موت اور خوف
تحریر۔ حکمت یار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا شہر، جس میں محض ہوا ہی سائیں سائیں کررہا تھا۔ روز روز بوٹ کے ٹاپوں کی آواز سے پرندے بھی سہم گئے تھے اور شجر بھرے بہار میں زرد لگتے تھے۔ کہیں دور چند ایک کتوں کی بھونکنے کی آواز بھی آتی تھی۔ مگر کُتے کی بھونکنے کی آواز میں ایک شدید بُوٹ مُخالف رد عمل تھا۔ یہاں دِن کو محض لاش ہی گرتے جو درختوں کی زردیوں کو دوبارہ رعنائی بخشتے اور پرندوں کی چہچہاہٹ میں گلشن سنوارتے۔۔۔ انہی لاشوں سے رسنے والا خُون ہوا میں کبھی گوریچ اور کھبی شنزہ او ساتَو کا سبب بنتا۔ اور انسان تو انسان ہر جانور اپنی بساط کے مُطابِق اس مزاحمت کے عمل میں شریک تھا۔ ہاں! غداروں کی کمی بھی نہ تھی۔غداروں میں بھی نہ صرف آدمی بلکہ جانور بھی شاملِ حال تھے۔
رات کے دو بج رہے ہیں۔ سُجھائی کچھ نہیں دیتا، البتہ آسمان پر چمکتے ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ مرکزی شاہراہ کی طرف سے چند روشنیاں آنکھوں پر پڑی تو آنکھیں خوف سے تھرتھر کانپنے لگے۔ شدید تاریکی میں گاڑیوں کے لائٹس بھی ستاروں کی طرح ہی روشن تھے۔۔ بلکہ اُن سے کچھ زیادہ ہے۔۔ مگر ستارے فطرت کے تھے اور گاڑیاں جی ایچ کیو کے۔
قریباً اکیس گاڑیوں کے ریلے نے شہریوں کو چاروں طرف سے اپنی گھیرے میں لے لیا۔ خاموشی اور بڑھ گئی۔ ہوا کا سائیں سائیں کرنا بھی رُک گیا۔ اور درختوں کے پتے ہلنا بھی بند۔
ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی، مُختلف گھروں میں مزاحمت کا شرح مُختلف رہا اور طریقہ بھی۔ سمیع کے گھر میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اُن بوٹ والوں پر گولیوں کی بُوچھاڑ ہوگئی اور آن کی آن میں سترہ لاشیں گریں۔ یہاں مزاحمت کا طریقہ کار شدید اور شرح میں انتہائی زیادہ ہے۔ بُوٹ والوں کی اندھا دُھند فائرنگ سے سمیع کے دایاں بازوں پر ایک کارتوس لگی، جس سے بندوق کا گھوڑا دبانے میں مُشکل پیش آنے لگا، چند منٹ سمیع کی جانب سے رُکی ہوئی فائر کو بُوٹ والے غنیمت سمجھے۔ اور اسی طرف بڑھے، جہاں سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ سمیع نے بندوق کا چھامپ اُلٹے ہاتھ سے دبایا اور چند ہی لمحے میں چار بُوٹ والے اپنے سائے سمیت گرتے دکھائی دیئے۔ پھر مُزاحمت کا وہ باب بُوٹ تلے کُچل دیا گیا۔ شہید سمیع کی ایک بہن کو لاپتہ کیا گیا، دوسری بہن ایک مسلسل چیخ بن کر پریس کلب کے سامنے ایک مزاحمتی علامت بن رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔