بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ، سندھی اور پشتون تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہمارے آج کے فیصلے اور حکمت عملیاں ہمارے مستقبل اور قوم پرستانہ تحریک کے خدوخال اور قومی تقدیر کی تعمیر پر نہایت دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مختلف نظریات اور نشیب وفراز سے گزر کر آج پوری دنیا میں نیشنلزم کا فکر و نظریہ عروج پا رہا ہے۔ بڑی طاقتیں ہوں یا چھوٹے ممالک، وہ نیشنلزم کے نظریے پر کاربند ہوکر قومی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیر قبضہ اقوام کو اپنے قومی مفادات کے لئے ترجیحات کے تعین اور ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے تاریخ نے ایک سازگار موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ہم محکوم قوموں پر منحصر ہے کہ وہ اس مرحلے میں کس طرح اپنی مفادات کی حفاظت کے لئے تاریخ ساز فیصلہ کریں گے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ آج پاکستان کے مظالم صرف ایک قوم، طبقہ یا علاقے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ بلوچ، پشتون،سندھی سمیت دیگر محکوم اقوام یکساں طورپر بربریت کی زد میں ہیں۔ ہزاروں بلوچ، پشتون اور سندھی پاکستان کی خفیہ اذیت خانوں میں ہولناک تشدد سہہ رہے ہیں۔ گوکہ بربریت کا یہ سلسلہ بلوچوں کی اغوا، گمشدگی اورحراستی قتل سے شروع ہوا تھا مگر جلد ہی ان تمام قوموں کو بھی نشانہ بنایا جو اپنے جائز مطالبات کیلئے آواز بلند کرنے لگے۔ آج پاکستان مکمل طورپر ایک عسکری ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تمام محکوم اور مقبوضہ خطوں پرمکمل غلبہ حاصل کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کو عسکری قوت سے کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی آوازوں کو ختم کرنے کے لئے تمام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان بلوچ سمیت تمام محکوم قوموں کے باشعور اور توانا آوازوں کو کچلنے اور قوموں پر اجتماعی سز ا کی پالیسی پر گامزن ہے۔ حتیٰ کہ آزاد اور غیر جانبدار صحافی بھی زد میں آرہے ہیں۔ بلوچستان میں غیر جانبدار صحافیوں کی اکثریت قتل ہوچکا ہے۔ پاکستانی بربریت کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ فوج و خفیہ ادارے اسلام آباد جیسے شہر میں دن کی روشنی اور کیمروں کے سامنے صحافی مطیع اللہ جان کو اٹھاتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے مختلف عالمی اداروں کی بروقت چیخ و پکار سے وہ بازیاب ہوگئے لیکن بلوچستان جہاں میڈیا ناپید ہے، وہاں فورسز والدین کی نظروں کے سامنے ان کے بچے اٹھائے جاتے ہیں۔ بلوچ بیٹیوں کی آہ وبکا اور فریاد آسمان ہلارہی ہیں لیکن پاکستان طاقت اور رعونت کی زعم میں ان چیخوں کو درخوراعتنا سمجھتاہے۔ یہی صورتحال سندھ اور پشتونستان میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں روز اول سے سیاسی کارکن پاکستانی درندگی کی زد میں تھے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ غیر سیاسی اور فلاحی تنظیم بھی بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ فلاحی تنظیم ”اوست“ کی پوری قیادت کو لاپتہ کیا گیا ہے۔سیاسی و سماجی کارکن،اساتذہ،صحافی،پروفیسر، ڈاکٹر سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں سے کوئی محفوظ نہیں۔ فورسز کی بدترین تشدد اور واضح نسل کشی سے بلوچستان میں ایک انسانی بحران پیدا ہوچکاہے۔۔
چیئرمین خلیل نے کہا پاکستان نے قومی آزادی سمیت بنیادی حقوق مانگنے والوں کو کچلنے کاباقاعدہ فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کی جنگ میں بڑی طاقتیں اس کی ہاں سے ہاں ملارہے ہیں یا ان مظالم پر اسے کسی عالمی فورم پر جوابدہی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد آزاد مقامی میڈیا پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے بیانیے کی دفاع اور تشہیر پر معمور ہے۔ بین الاقوامی میڈیا پر باقاعدہ پابندی عائد ہے۔مظلوموں کی چیخ عالمی برادری سے تک پہنچنے کے بجائے وہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ عالمی اداروں کی غافلانہ خاموشی کی وجہ سے مظلوم و محکوم قوموں پر بربریت سے پاکستان اب تک احتساب سے مستثنیٰ ہے۔ ذمہ دار عالمی اداروں کی خاموشی کو استثنیٰ سمجھ کر پاکستان کی درندگی روز بہ روز نئی انتہا کو پہنچ رہاہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ایک جانب پاکستان کی باقاعدہ فوج و خفیہ اداروں کی بربریت ہے تو دوسری طرف ریاست پاکستان نے الشمس و البدرکے طرز پر دہشت گردوں کی جھتے بنائے ہیں جنہیں محکوم قوموں کی تحریکوں کو کچلنے کے استعمال میں لایا گیا ہے۔ یہ جھتے اسی طرح مضبوط اور جدید اسلحہ سے لیس ہیں جیسا کہ ریاست کی ریگولر فوج اور نیم فوجی ادارے ہیں۔اس وقت فوج، خفیہ ادارے اور مسلح جتھوں کے ہاتھوں بلوچ قوم بدترین نسل کشی سے دوچار ہے۔ نہ صرف ہزاروں بلوچ قتل اور ہزاروں زندانوں میں قید ہیں بلکہ سندھ میں صرف جون کے مہینے سے اسی (80) سے زائد سندھی قوم پرست کارکن اٹھا ئے گئے ہیں۔ اس وقت سندھ میں پانچ سو سے زائد سیاسی کارکن پاکستانی زندانوں میں قید ہیں۔ پشتون وطن میں اغواء، ہدف بناکرقتل اور حراستی قتل معمول بن چکا ہے۔ دو رو ز قبل پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما اور معتبر پشتون آوازفضل ایڈوکیٹ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ بال بال بچ گئے۔ پشتون قوم پر تاریخ کے بدترین مظالم جاری ہیں۔ مذہبی جنونیت کو ہتھیار بناکر پشتون وطن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی ہے۔ بین الاقوامی امداد اور بلیک میلنگ کے لئے پشتون وطن کو دہشت گردی کے ایک تجربہ گاہ کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچ، سندھی اور پشتونوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ قوم پرستانہ تحریکوں سے پاکستان کی غیر فطری بنیادیں ہل چکی ہیں۔ پاکستان آخری حربے کے طورپرریاستی دہشت گردی سے قوم پرست تحریکوں کو کچلنے کے لئے تمام حدپار کرنے کے حتمی فیصلہ پر عمل درآمد کررہاہے۔
بلوچ رہنما نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت تاریخ کا سب سے ڈھونگ ہے۔ فوج جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلیاں ضرور سامنے لاتاہے لیکن اقتدار اعلیٰ فوج کے ہی پاس ہوتا ہے۔ تمام محکوم قوموں کی زیست و موت اور وسائل و اختیار پاکستانی فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ پاکستان کی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے تاریخ چیخ چیخ کر قوموں کو یکجہتی کے لئے پکار رہی ہے۔ اگر قوموں نے تاریخ کی پکار پر کان نہ دھری تو آنے والا وقت ہمارے لئے مزید سنگین اور مشکلات سے بھرپور ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ بلوچ،سندھی اور پشتون کے قوم پرستانہ تحریکوں کے پس منظر اور حالیہ تاریخ میں کئی حوالوں سے نمایاں فرق موجود ہے۔ لیکن ان قوموں کے خلاف دشمن کے مظالم اور بربریت یکساں ہے۔ دشمن یکساں طورپر ہمیں مٹانے کے لئے جارحیت پر گامزن ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ،سندھی اورپشتون مشترکہ دشمن کے خلاف کم سے کم نقاط پر اتحاد کے لئے بات چیت کا آغاز کریں اور عالمی سطح پر ایک موثر اور منظم آواز کی تشکیل کے لئے آگے بڑھیں تاکہ ایک موثر آواز بننے کے لئے عالمی فورمز پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور انسانی المیے پر مشترکہ پلیٹ کے قیام کی راہ ہموار کرسکیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچ اور سندھی اپنی منزل کا تعین کرچکے ہیں۔ اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پشتون قوم بھی پاکستانی دہشت گردی سے تاریخ کے بدترین تشدد سے دوچار ہے۔ اپنی سرزمین پشتون قوم کے لئے ایک اذیت گاہ میں تبدیل کی جاچکی ہے۔ لیکن اب تک یہ عظیم قوم اپنی منزل کی تعین کرنے میں ہمیں کامیاب نظر نہیں آتاہے اور قانون کی حکمرانی کا خواب خوش فہمی کے سمندر میں ڈوبنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جتنی جلدی ممکن ہو ہمارے برادر قوم کو اس خوش فہمی سے نکلنا چاہئے کہ پاکستان انہیں آئینی یا قانونی حقوق دے گا۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت محکوم قوموں کے لہو پر پل رہاہے۔ پاکستان قطعا اس سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔ہمیں قوی امید ہے کہ پاکستان کی درندگی سے نجات کے لئے پشتون قوم واضح ترجیحات کے ساتھ اپنی سمت اور منزل کا تعین کریگی۔ اس وقت پشتون جس ریاستی دہشت گردی و حیوانیت سے دوچار ہے،اس پر پشتون قوم کے نمائندوں تنظیموں سے لاپتہ افراد اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف اتحاد پر بات چیت کا آغاز ہوسکتاہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا تمام محکوم قوموں کے لئے پاکستان کے بربریت کا مقابلہ کرنے کے لئے یکجہتی اوراتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ بلوچ،سندھی اور پشتون قوم کو معروضی حقائق کو مدنظر رکھ کر مشترکہ دشمن کے خلاف حکمت عملی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ بصورت دیگر پاکستان کی دہشت گردی میں روز اضافہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار کرے گی اورتاریخ میں ہم اپنی اپنی قوموں کے قرضدار ٹھہریں گے۔