ماتمی لباس میں کون رو رہا ہے اور کیوں رو رہا ہے؟ – محمد خان داؤد

147

ماتمی لباس میں کون رو رہا ہے اور کیوں رو رہا ہے؟

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

 

بلوچستان میں گمشدہ انسانوں کے لیے پہلے ان کے بچے روئے، پھر بہنیں، پھر محبوبائیں پھر مائیں اب تو ان کے لیے شاعر بھی رو رہے ہیں۔

بلوچستان میں گم شدہ لوگوں کے لیے پہلے ان کی بہنیں مسافر بنیں، پھر مائیں سفر میں رہیں، اب تو بلوچستان کے شاعروں کے الفاظ بھی مسافر بنے ہیں اور ان شاعروں کے لکھے الفاظ ان معنوں میں استعمال ہو رہے ہیں جن کے لیے لطیف نے لکھا تھا کہ
،،ڈونگر مون سین روئے،کڈھی پار پنھوں جا!،،

بلوچستان کے گم شدہ انسانوں کے لیے پہلے تو بس ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور محبوباؤں کے گال گیلے رہتے تھے، پر اب تو بلوچستان کے شاعروں، دیداوروں، دانشوروں کے گال بھی گیلے گیلے ہو رہے ہیں۔

بلوچستان کے وہ شاعر جو شال کے رومانٹک ماحول میں رہ کر ایسی باتیں لکھتے تھے کہ جنہیں پڑھ کر حسین لڑکیوں کے گالوں پر سُرخی دوڑ جا تی تھی اور ان کی مانگوں میں گلابی گلابی سندور پھر جاتا تھا
پر اب وہی لکھے الفاظ کتابوں کے اوراق کو گیلا کر رہے ہیں
اب بلوچستان میں کتابیں رومنٹک نہیں
اب بلوچستان میں کتابیں گیلی گیلی سے ہیں
اب بلوچستان کا لکھا ادب محبوبہ کی یاد نہیں دلاتا
اب بلوچستان کا لکھا ادب جب پبلش ہوتا ہے یا آن ائیر ہوتا ہے تو آدمی کے من کو ملول کر جاتا ہے
آنسو ہو تے ہیں کہ نکلنے کو بے تاب ہو تے ہیں
اس وقت انسان کے دل اور دید کی ایسی حالت ہو تی ہے جس کے لیے بلھے شاہ نے کہا تھا کہ
،،اسان تے روئن دے وجھ تلاش دے نے!!!،،
،،مجھے تو رونے کو بہانا چاہیے!!!،،
کیوں؟
اس لیے کہ جو انسان بلوچستان کی ادبی کھیتی کے ہاری ہیں، وہ بھی تو کسی کے بھائی ہی ہیں نا؟
اور ان ادبی ہاریوں کی مائیں، بہنیں،ہی نہیں پر وہ ادبی ہا ری بھی اپنے گم شدہ رشتوں پر ملال میں آجا تے ہیں

ایک لفظوں کا آدمی کر بھی کیا سکتا ہے، جب اس کو پہلے سے اُٹھا لیا جائے اور اس گھر میں ماں سراسر ماتم بن جائے تو حساس شاعر ادیب اور کیا کرے، وہ تو ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو دلا سہ بھی نہیں دے سکتا کیوںکہ دلا سہ تو وہ دے جس کا دامن تار تار نہ ہو اور ان شاعروں ادیبوں، دیداروں، دانشوروں کے دامنوں میں اتنے چھید ہوتے ہیں کہ ان دامنوں میں تو دعائیں اور آنسو بھی نہیں ٹہرتے وہ بھلا ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں محبوباؤں کو کیسے دلا سہ دیں؟
اس لیے جب وہ کچھ لکھتے ہیں تو گیلے من سے لکھتے ہیں
اور وہ گیلا من ان پیپروں کو گیلا کر جاتا ہے
اور وہ گیلے پیپر ان الفاظ کو گیلا کر جاتے ہیں جو ان گیلے پیپروں پہ نمودار ہو تے ہیں کسی یاد کی طرح!
اور پھر وہ گیلے گیلے الفاظ جب کسی کتاب میں نظر آتے ہیں تو اس کتاب کو گیلا کر جاتے ہیں
پھر جب وہ گیلے الفاظ کسی کے سماعتوں پہ پڑتے ہیں تو ان سماعتوں کو گیلا گیلا کرجاتے ہیں
اور جب کوئی ان الفاظ کو اپنی زباں سے ادا کرتا ہے تو وہ الفاظ ان آنکھوں میں بھی آنسو بھر دیتے ہیں جن آنکھوں کے لیے بلھے شاہ نے کہا ہے کہ
،،مجھے تو رونے کا بہانا چاہیے!،،
اب بلوچستان میں بس مائیں نہیں رو رہیں۔ اب بلوچستان میں بس بہنیں نہیں رو رہیں۔ اب بلوچستان میں بس بیٹیاں نہیں رو رہیں۔ اب بلوچستان میں بس محبوبائیں نہیں رو رہیں۔ اب تو بلوچستان میں لکھے الفاظ بھی رو رہے ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ
،،ہم سے ماتمی لباس کب اترے گا؟!!،،
وہ مسافر مائیں تو اپنے سروں پہ ماتمی چادریں اُوڑھ چکیں!
وہ مسافر بہنیں!
وہ مسافر بیٹیاں!
وہ مسافر بچے!
وہ مسافر محبوبائیں!
وہ بے جا سفر
وہ مسافر منزلیں!
سب اپنے اپنے سروں پہ ماتمی چادریں اُوڑھے ہوئے ہیں
پر اب تو بلوچستان میں لکھا ادب بھی ماتمی لباس اُوڑھے ہوئے ہے!
کیوں؟
اس لیے کہ اب بلوچستان کا درد ناقبل برداشت بن چکا ہے، اب یہ ایسا درد بن چکا ہے جیسا درد سسی کا تھا، سسی بھی تو مسافر بنی تھی اور راہ چلتے پتھروں نے سسی کے درد کو دیکھ کر سسئی سے پوچھا تھا کہ
،،ہم تو پتھر ہیں تمہارے ساتھ چل تو نہیں سکتے، سسی ہم تمہا رے لیے کیا کریں؟!!،،
تو سسی نے کہا تھا،،تم میرے ساتھ رو توسکتے ہو نہ
تم میرے پنہوں کو یاد کر کے میرے ساتھ رو!!!،،
،،ڈونگر مون سین روئے،کڈھی پار پنہوں جا!،،
،،پتھروں میرے پنہوں کو یاد کر کے میرے ساتھ رو!!!،،
اس لیے بلوچستان کی مائیں، بیٹیاں، بہنیں، بچے، محبوبائیں سب سسی ہیں
اور بلوچستان کے دانشور، دیداور، ادیب، شاعر سب پتھر ہیں یہ اور کچھ نہ کریں
پر ان ماؤں کے ساتھ رو تو سکتے ہیں نہ
وہ ان پنہوں کو یاد کر کے ان ماؤں کے ساتھ بہت سا روئیں
کاش وہ دانشور بھی بلھے شاہ کی ماند ہو تے اور کہتے کہ
،،مجھے تو رونے کا بہانا چاہیے!!،،

بھلے بلوچستان کے سب شاعر بلھے شاہ نہ ہوں پر بلوچستان کا فنکار، شاعر غمخوار حیات ہو بہو بلھے شاہ کی ماند ہے، وہ بھی ماتمی لباس میں ہے، اب وہ ان ماؤں کی طرح روتا دکھائی دیتا ہے۔غمخوار حیات سسی ہے۔ غمخوار حیات لطیف کا وہ پتھر ہے جو سسی کے ساتھ چل تو نہیں سکتا پر سسی کے ساتھ پنہوں کو یاد کرکے رو رہا ہے۔ اس غمخوار کا من بھی گیلا ہے۔ اس کے لکھے الفاظ بھی گیلے ہیں، اس کے گال بھی آنسوؤں سے تر ہیں اور اس کا دامن بھی تار تار ہے۔
کیوں؟
کیونکہ وہ بھی متاثر ہے اس کا بھائی عبدالرب بھی گذشتہ کئی سالوں سے لاپتہ ہے، اس کا کچھ پتا نہیں، نہ تو وہ بازیاب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو بلھے شاہ جیسا شاعر غمخوار حیات روئے نہ تو اور کیا کرے اب اس کے الفاظ بھی گیلی آنکھوں کی طرح گیلے ہیں اور جب بھی وہ پرفارمنس دیتا ہے تو آنکھوں کی ایسی حالت ہو جاتی ہے، جس کے لیے بلھے شاہ نے کہا تھا کہ
،،مجھے تو رونے کا بہانا چاہیے!،،
اور غم خوار حیات بھی بہانا تلاش کر کے رو ہی لیتا ہے
اورماتمی لباس میں ملکی نام نہاد میڈیا کیوں دیکھ کر کون رو رہا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔