لاپتہ سندھیوں کی حالت زار – ٹی بی پی اداریہ

343

لاپتہ سندھیوں کی حالت زار

ٹی بی پی اداریہ

گذشتہ ہفتہ مزید دو سندھی سیاسی کارکنان جبری طور پر لاپتہ کردیئے گئے۔ ستار ہکڑو کو کراچی جبکہ جاوید خاصخیلی کو سندھ کے علاقے نوابشاہ سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا۔ ستار ہکڑو کے اہلخانہ کے مطابق نہیں ماضی میں بھی “لاپتہ” رکھا گیا تھا، جبکہ کچھ عرصے لاپتہ رہنے کے بعد انہیں رہا کیا گیا جبکہ یہ تیسری باری ہے کہ انہیں یوں اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ انکے اہلخانہ کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس بار شاید نیاز لاشاری کی طرح وہ بھی واپس نہیں آئے۔

نیاز لاشاری سندھ قومی محاذ ( آریسر گروپ) کے ایک سینئر رہنماء تھے، جسے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب وہ رہا ہوئے تو وہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رکشہ چلانے لگے۔ دوسری بار 19 جنوری 2019 کو حیدرآباد کورٹ کے سامنے سے انہیں اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا، تقریباً ڈیڑھ سال لاپتہ رہنے کے بعد جون 2020 کو انکی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاش کراچی سے برآمد ہوئی۔

صرف ستار ہکڑو کا ہی خاندان اس خدشہ کا شکار نہیں کہ انکے پیارے کا انجام نیاز لاشاری جیسا ہوگا۔ ایک اور سندھی سیاسی کارکن عاقب چانڈیو کو 2018 میں سندھ کے شہر لاڑکانہ سے اغواء کرکے ایک سال تک لاپتہ رکھا گیا، پھر 2019 میں انہیں رہا کیا گیا۔ لیکن وہ آزادی کے دن زیادہ دیر تک نہیں دیکھ سکا، انہیں رواں سال 7 جون کو کراچی سے دوبارہ اغواء کیا گیا۔ جب انہیں اغواء کرکے لیجایا جارہا تھا تو انکی بہن اور بیوی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ پورا واقعہ وہ فلمبند کرکے فیس بک پر لائیو چلاتے رہے، لیکن اسکے باوجود عاقب چانڈیو ابتک لاپتہ ہیں۔

عاقب کی بہن شازیہ چانڈیو کے مطابق جو “وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ” (وی ایم پی ایس) کی ایک متحرک کارکن بھی ہیں انکا بھائی ابتک پچھلے اغواء کے اثرات سے مکمل صحت یاب نہیں ہوئے ہیں اور زیر علاج تھے۔

وی ایم پی ایس کے کنوینئر سورٹھ لاہار کے مطابق ابتک 60 سے زائد سندھی سیاسی کارکنان صرف جون کے مہینے میں لاپتہ کیئے گئے ہیں۔ انکا الزام ہے کہ انہیں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کررہے ہیں۔ سورٹھ لوہار کے مطابق ابتک صرف جولائی کے مہینے میں 17 سندھی سیاسی کارکنان کو اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔

جبری گمشدگیوں کو پاکستان میں اختلافِ رائے کو دبانے کا ایک حربہ سمجھا جاتا ہے اور پاکستانی خفیہ اداروں پر یہ الزام لگتا آیا ہے کہ وہ بلا ہچکچاہٹ اور مکمل آزادی سے اس حربےکا استعمال کررہے ہیں۔

لاپتہ سندھی سیاسی کارکنان کی حالت زار کی خبریں شاذ ہی منظر عام پر آتی ہیں، ان کہانیوں پر بات کرنے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ کتراتی ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی اسلام آباد تک لانگ مارچ اور ایک دہائی تک جاری احتجاج اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ابھرنے کی وجہ سے بلوچ اور پشتون لاپتہ سیاسی کارکنان کی خبروں پر کبھی کبھار روشنی پڑتی ہے۔ اسکے برعکس سندھی لاپتہ افراد کے مسئلے کو ازحد ممکن دبایا جارہا ہے۔ گذشتہ ماہ کراچی پریس کلب کے سامنے سندھی لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کیلئے جاری احتجاجی کیمپ کو اکھاڑ کر پھینکا گیا تھا اور احتجاج میں بیٹھی خواتین کو گھسیٹ کر پولیس کی گاڈیوں میں ڈالا گیا تھا۔

یہ استحصالی ریاستی پالیسیاں جبر کے شکار قوموں کو ایک دوسرے سے قریب لارہے ہیں۔ حالیہ دنوں سندھی، پشتون، مہاجر اور بلوچ رہنما جدوجہد کیلئے مشترکہ پلیٹ فارم کے قیام کی طرف اشارہ دے چکے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ امر بعید از قیاس نہیں کے آنے والے دنوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک وسیع مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم نظر آئے۔

سیاسی جماعتوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر سندھ اور بلوچستان کے آزادی پسند مسلح جماعتوں نے بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے امبریلا آرگنائزیشن “براس” اور سندھی مزاحمتی تنظیم “ایس آر اے” کی صورت میں ایک متحد محاذ کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔