علامات سے آگے
ٹی بی پی اداریہ
جون کی 29 تاریخ کو چار مسلح افراد پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ای) پر دھاوا بولتے ہیں، اور عمارت کے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں، بظاہر ان حملہ آوروں کا ارادہ عمارت کے اندر داخل ہوکر اس پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یہ مقابلہ سیکیورٹی اداروں کے چار اہلکاروں کی ہلاکت و چھ کے زخمی ہونے جبکہ چاروں حملہ آوروں کے مارے جانے پر منتج ہوتا ہے۔ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انکا مقصد ناصرف پاکستان بلکہ چین کے بھی معیشت کو نشانہ بنانا تھا کیونکہ چین پی ایس ای کے 40 فیصد حصص کا مالک ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین کے مطابق، انہوں نے ایک “فول پروف ” سیکیورٹی نظام نافذ کیا ہوا تھا۔ عمارت کی حفاظت پر نجی فرم کے 25 محافظوں کے علاوہ پولیس کمانڈوز بھی نافذ تھے، جنہوں نے عمارت کے تین سطحی حفاظتی نظام پر مورچے سنبھالے ہوئے تھے۔ لیکن مسلح افراد اس سخت سیکیورٹی کے باوجود حفاظتی حصار توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اپنی جانوں کی قیمت پر۔
اس بات کا آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک علامتی حملہ تھا، لیکن 29 جون کو بی ایل اے کی حملوں کی شدت میں اضافے کی صلاحیت، علامات سے آگے تھی۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ اگر اس حملے کو روکا نہیں جاتا تو یہ پاکستان کو اتنا ہی نقصان پہنچاتا، جتنا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے نے امریکہ کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ شاید مبالغہ لگے لیکن مراد علی شاہ غلط نہیں ہیں، پاکستانی معیشت ایک انتہائی نازک صورتحال سے گذررہی ہے اور انہدام کے کگار پر لٹک رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک مکمل کامیاب حملہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو زک پہنچانے کیلئے کافی تھا، جو پاکستان کے معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی۔
میڈیا میں جو بھی دعوے کیئے گئے، اسکے برعکس حملے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پاکستان کی معیشت نے اس حملے کے اثرات دیکھنا شروع کردیئے، بازار میں مندی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے انڈیکس 220 پوائینٹس نیچے آگیا۔ اسی طرح پہلے سے ہی کمزور پاکستانی کمزور کرنسی کی قدر میں مزید کمی آگئی۔ اگلے ہی روزڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر میں 0.3 فیصد کمی آئی جس کی وجہ سے ڈالر 167.6 تک پہنچ گئی۔
قطع نظر اس حملے سے پیدا ہونے والی معاشی دہچکوں کے، پاکستانی سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کیلئے سب سے زیادہ خدشے کی بات بلوچستان میں جاری شورش کا بلوچستان کے حدوں سے نکل جانا اور بلوچ مزاحمت کاروں کے حملوں کے صلاحیتوں میں اضافہ ہے، جو اب پاکستان کے معاشی مرکز کراچی کے اہم اور محفوظ مقامات کو ایک مختصر مدت میں دو بار نشانہ بنا چکے ہیں ( پی ایس ای اور چینی قونصل خانہ)۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق، جس طرح کا جدید اسلحہ حملہ آوروں سے برآمد ہوا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل اے نے زیرزمین اسلحہ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلی ہے۔
یہ حملہ اس امر کا اظہار ہے کہ دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں، بی ایل اے ” اربن گوریلہ جنگ” کے نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ جو ماضی سے زیادہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ بی ایل اے نے اس حملے کے بابت میڈیا میں جو تفصیلی بیان جاری کی تھی، اسکے مطابق انہیں اس حملے میں سندھی قوم کی مکمل تعاون حاصل تھی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ ایک ہمسایہ قوم کے علاقے میں گھسنا نہیں تھا بلکہ ” مشترکہ دشمن” کے خلاف دعوت تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں مزید مشترکہ حملے ہوسکتے ہیں۔