سورگر میری ماں ہے – تلار بلوچ

770

سورگر میری ماں ہے

تحریر: تلار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں اپنے اور اپنے بچوں کی داستان کو اپنی زبان سے بتانا چاہتی ہوں۔ ایک ماں کواپنے بچےسے جدا کرتے ہوئےماں کو کتنا درد ہوتا ہے، وہ لفظوں میں بیان کر نہیں سکتا، اگر بچے اپنی ماں کی عزت و آبرو پامال ہوتے ہوئے دیکھیں، اس پر دوزخ طاری ہو جاتا ہےلیکن وہ لمحہ برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے، اپنی جان تک قربان کرنےکو تیار رہتا ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جسے کوئی قانون جدانہیں کر سکتا۔ میں وہی بے بس ماں ہوں، اپنے بچوں کو درندہ وحشیوں کے ہاتھوں چیڑ پھاڑ ہوتے ہوئےاپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اپنی بہن گنجو کوہیلی کاپٹروں پر سوار کرتے ہوئے دیکھا، 70 سالہ بوڑھے سخی داد اور 12 سال کے بچے الللہ بخش کو مار پیٹ کرکے ہیلی کاپٹروں میں سوارکرتے ہوئے دیکھا۔ اپنے سینے میں جگہ دینے والےتمام بہنوں بھائیوں بیٹوں بیٹیوں ماؤں اور باپوں کے گھروں کو جلاتے ہوئےان کو پیٹ مار کرتےہوئے گاڑیوں کے پیچھے باندھتےاور ان کے مال مویشیوں کو جلاتے ہوئے دیکھا لیکن میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، میں کچھ نہ کر سکا۔

مجھے قید کر لیا گیا تھا اور مجھے غلام بنالیا گیا تھا، میرے سینے پر 32 چوکیاں لگائے گئے گریشہ، اورناچ مشکے، جھاؤ، بیلہ اور کودگ سے بڑی تعداد میں فوج گدھوں اور اونٹوں سےسورگر کے اندر داخل ہو رہے تھے، مجھے گھیر لیا گیا تھا۔ ہیلی کاپٹروں سے میرے سینے پر میری آنکھوں کے سامنے میری فرزندوں کو مار رہے تھے۔ ہر طرف دوزخ کے مناظر تھے۔ میرے ہاتھ میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں اور آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ بس ہیلی کاپٹروں کی گڑھ گڑاہٹ اور شیلنگ کی آواز مجھے پاگل بنا رہی تھی اور اپنے فرزندوں کو بچانے کی آواز دے رہاتھا لیکن میرے بہادر فرزند دشمن کو للکار رہے تھے۔ روزانہ صبح سے شام تک کھبی 4 کھبی 6 اور کبھی 8 ہیلی کاپٹر 20 روز تک مجھ پر شیلنگ کرتے رہے۔ اپنی ماں کی اس حالت کو میرے غیور فرزندوں نے جو میری حفاظت کے لیے دشمن کے خلاف بندوق تھامے ہوئے تھے میرے بچوں کی مدد کر رہے تھے اور میری عزت کی خاطر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے۔ اپنے بیٹوں کی ہمت اور جرات دیکھ کر یقین ہو رہا تھا دشمن کی یہ مجال کہ میرے بیٹوں کو شکست دے سکے۔

میرے فرزند بندوق لیئے دشمن کی تلاش میں گھوم رہے تھے، مجھے دشمن سے آزاد کرنے نکلے تھے، ہیلی کاپٹروں کی بمباری اور شیلنگ کرنے کے باوجود کچھ مجھے آزاد کرنے پہنچے تھے اور دشمن کو مار رہے تھے، پسینے سے گیلا ہورہے تھے۔ دشمن کی بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی، میں نے اپنا سینا کھول کر اپنے باہوں میں اپنے فرزندوں کو پناہ دی، اچانک دشمن نے میرے فرزندوں پر ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کرنا شروع کیا اور پہاڑوں میں کمانڈوز اتارے گئے۔

میں نے آنسو بھرے آنکھوں سے شاشان سے مدد چاہا، شاشان مدد کرنے نکلا میرا رابطہ منقطع ہوگیا، شاشان پہنچ نہ سکا تو درون سے مدد مانگا جواب آیا وہ کب سے سویا ہوا ہے، مدد کرنے کا قابل نہیں رہا ہے درون نے جواب دیا مجھے ماں کی پرواہ نہیں بس اپنی جیب بھرنے کے لیے کاروبا ر کرنا چاہتا ہوں کاروباری لوگ کبھی وفادار نہیں ہوتے، مجھے بہت دکھ ہوا اور کچھ کہہ نہیں سکا اپنا رابطہ منقطع کردیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔