بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ حاصل خان کا حالیہ ٹی وی انٹرویو اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے علاوہ پاکستان کے شکستہ حوصلوں کو سہارا دینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ حاصل خان اور نیشنل پارٹی کا مجموعی کردار بلوچ قوم اور تاریخ کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہزارجھوٹ، ہزارہا تاویلوں کے باوجود یہ لوگ مکافات عمل سے نہیں بچ پائیں گے۔ تاریخ صادق و جعفروں کے لئے سزا و جزا کا پیمانہ متعین کرچکا ہے۔ آج بھی جو لوگ بلوچ تحریک کے خلاف دشمن کے ہمقدم ہیں، وہ بھی تاریخ کے انتقام سے نہیں بچ پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حاصل کا یہ کہنا ہے کہ”تحریک اوائل کے چند سالوں میں انڈیجینئس تھا لیکن بعد میں اپنی راہ سے بھٹک گیا“ یہ اصل میں پاکستان سمیت حاصل خان جیسے لوگوں کی غلط تجزیوں، قیاس اورتخمینوں کا غماز ہے۔ کیونکہ پاکستان سمیت پاکستان کے تنخواہ دار وں کا قیاس تھا کہ یہ چند جذباتی نوجوان ہیں، ایک وقتی اْبھار ہے جو دو، چار سال بعد اپنی موت آپ مرجائیں گے، یہ انکی بلوچ قومی مزاحمتی تاریخ اورسیاست کے جدید تقاضوں سے ناآشنائی اور پاکستان پربھروسہ کا نتیجہ تھا کہ ”ایک بڑی طاقت کے سامنے یہ نہیں ٹک پائیں گے اور طاقتور فوج انہیں کچل دے گا“۔
وقت نے ثابت کردیا کہ پاکستان اورنیشنل پارٹی کے ہوائی قلعے دھڑام سے گر گئے۔ پاکستان نے بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لئے بلوچستان کو چین کے پاس گروی رکھا اور نیشنل پارٹی نے فوجی بیرکوں میں پناہ لے کر اعلان کر دیا کہ ”نیشنل پارٹی اور پاکستانی فوج“ ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن بلوچ مزاحمت آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ قوت کے ساتھ جاری ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ حاصل خان کا اعتراف کہ ”وہ فوجی سیکیورٹی کے بغیر بلوچستان میں سفر نہیں کرسکتے ہیں“۔ جناب کو کس بات کا ڈر ہے۔ پھر وہ ایک ہی سانس میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ”مزاحمت کار شہروں سے دیہات اور دیہات سے سرحدوں میں سمٹ گئے ہیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ حاصل خان اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلوچستان میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی ایسا گھرانہ باقی نہیں رہا جس کا ایک نہ ایک فرد حاصل خان یا نیشنل پارٹی کے ہمکاری میں فوجی درندگی کا شکار نہ ہوا ہو۔ بلوچ قومی جنگ نے پاکستان کو مختلف ذرائع استعما ل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس میں پروکسی اور تنخواہ دار نام نہاد پارلیمنٹرین سرفہرست ہیں۔ پروکسی مسلح ہوکر قتل عام میں فوج کے ساتھ شریک ہیں۔ پارلیمنٹرین فوجی درندگی کو سیاسی چہرہ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اب ان کی تعداد بڑھ چکا ہے اور اہمیت میں کمی آئی ہے۔ اس سے حاصل خان مایوسی کا شکار ہیں اور و قتا ً فوقتاً اپنی قیمت اور تنخواہ بڑھانے کے لئے ایسی شوشا چھوڑتے
ہیں جس کا معروضی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نیشنل پارٹی کی بات کی جائے تو ان کی حکومت کے دوران ہزاروں بلوچ جبری گمشدگی کا شکار بنے، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ انہی کی دورِ حکومت میں توتک اور دیگر علاقوں سے اجتماعی قبریں برآمد ہوئیں۔ یہی نہیں بلکہ ایپکس کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ڈاکٹر مالک اور حاصل خان کمپنی نے فوجی آپریشنوں میں بلوچوں کے قتل عام کو سیاسی لائسنس فراہم کی۔ انہی کی دورِ حکومت میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے تیرہ ہزار سے زائد بلوچوں کو دہشت گرد قرار دیکر گرفتار کرنے کا اعتراف کیا۔ اسی طرح سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے مزید نو ہزار افراد کو حراست میں لینے کا اقرار کیا۔ ان میں سے کسی کو بھی منظر عام پر یا کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ صرف یہی تعدادتقربیا پچیس ہزار ہے جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ان گرفتاریوں کو خود سرکاری نمائندوں نے قبول کی ہے۔ یہ صرف نیشنل پارٹی کے ڈھائی سالہ دورحکومت میں رونما ہوئے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کئی گنا ہ زیادہ ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا آج حاصل خان مزاحمت کی شدت و طاقت سے انکاری ہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج نے پوری بلوچستان کو کیونکر چھاؤنی میں تبدیل کی ہے۔ روزانہ کی بنیادپر آپریشن کیوں ہورہے ہیں۔ پاکستان فوج مختلف علاقوں میں عام آبادیوں کو انسانی ڈھال کے طورپر کیوں استعمال کررہاہے۔ حاصل کے دعوے محض دعوے ہیں۔ کوہلو سے لے کربحر بلوچ اورکراچی تک بلوچ مزاحمت کار روزانہ پاکستانی فوج اور اسٹریٹیجک مقامات پر حملے کررہے ہیں۔ واقعات و حالات ثابت کرچکے ہیں۔ بلوچ قوم نہیں بلکہ پاکستانی ریاست فرسٹریشن کا شکارہے۔ اس کی تلافی کے لئے حاصل خان جیسوں کی خدمات لی جاتی رہی ہیں۔ آئندہ دنوں میں ان کی مراعات میں ممکن ہے اضافہ کی جائے تاکہ نیشنل پارٹی کی قیادت ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر معصوم ورکروں کو جاسوسی نیٹ ورک میں تبدیل کردے جوکہ عرصے سے نیشنل پارٹی کر رہا ہے اور کئی علاقوں میں ان کے مرکزی رہنما باقاعدہ ڈیتھ سکواڈ چلارہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچ کا حافظہ اتنا کمزور نہیں جتنا حاصل خان سمجھتا ہے۔ اسی حاصل خان و مالک کی جماعت نے بلوچستان میں سوات طرز آپریشن کا مشورہ دیا۔ گوکہ یہاں سوات سے بدترین آپریشن پہلے ہی سے جاری تھا۔ میڈیا بیانات کے ذریعے فوج اور ریاست کو حوصلہ دینے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی نیشنل پارٹی ہر وقت کی طرح سرکار کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ اپنے زرخریدحریفوں پر بازی لے جانے کے لئے نت نئے شکلوں میں سامنے آتے ہیں۔ و ہ سمجھ رہے ہیں کہ بلوچ قوم ان کی گناہوں و جرائم کو بھول چکاہے، جو ناممکنات میں شامل ہے۔