جنگ میں آپ نے حدود پھلانگے
تحریر: قاضی ریحان
دی بلوچستان پوسٹ
بوڑھے شہید اکبر بگٹی کو ان کے گھر پر توپ کے گولے مار کر قتل کرنا چاہا، اس حملے میں کئی بچے، بوڑھے، مارے گئے۔آپ نے ہمارے ملک پر قبضہ کرکے چپے چپے پر اپنی چھاؤنیاں بنائی ہیں، ہم نے سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنایا آپ نے اپنے ٹارچرسیلز ہمارے سیاسی کارکنان، دانشور، صحافی اور طلباء سے بھر دیئے تاکہ ہماری پرامن سیاسی مزاحمت کا خاتمہ ہو۔
آپ نے بلوچستان پر قبضے کے لیے بلوچستان کے دارالخلافہ کلات پر چڑھائی کرکے مسجد کے مینار کو شہید کیا، وہاں ہمارے تین سپاہی تمہاری بربریت کا شکار ہوئے۔
آج جب ہمارے سرمچاروں نے اس جنگ کو تمہاری دہلیز اور کاروباری شہہ رگ پر پلٹ دیا ہے، تم پر بلوچ سرمچار موت بن کر منڈلا رہے ہیں ۔۔۔ اب تمہاری چیخیں کیوں نکل رہی ہیں؟
ہمارے ملک میں اپنے پالے خونخوار دہشت گرد ڈیتھ اسکواڈز کے نیٹورک بنا کر آپ نے کبھی سوچا کہ یہ جرائم پیشہ گروہ جب ہر طرف دندناتے پھریں گے تو ہماری زندگیاں کس قدر اجیرن ہوں گی؟
ہمارے سماج کو آپ نے اپنے مفاد میں انتہا پسندی کی بھٹی میں جھونک دیا تاکہ ہم تقسیم در تقسیم ہوکر، کمزور ہوں۔۔۔کیوں؟ تاکہ ہماری سیاسی اور سماجی مزاحمت دم گھٹ کر مر جائے؟
بلوچوں نے اب اچھی طرح سیکھ لیا ہے ہماری تحریک اور ہماری قومی وجود کی بقا مسلح جدوجہد میں ہے۔ جب تک آپ پاکستانی قبضہ گیر اپنی دہشت گردی اور بدمعاشیوں سے باز نہیں آؤ گے یہ مزاحمت جاری رہے گی اور ہم اس جنگ کی ببانگ دہل حمایت کریں گے۔
دنیا کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ اس جنگ میں صرف ہمارے بچے یتیم ہوں، ہمارے گھر جلیں، ہم بھوکے مریں۔جنگ کے وہی قانون ہوتے ہیں جو فریقین کو قبول ہوں۔
آپ نے نا غیرمسلح عورتوں کو بخشا، نا بچے آپ کے شر سے محفوظ ہوئے، نا ہماری مساجد اور نا ہی ہمارے تعلیم گاہوں کو آپ نے رعایت دی۔
بی ایل اے مجید برگیڈ کے سرمچاروں نے غلامی کے خلاف جدوجہد آزادی کی عالمی مزاحمت کی شاندار روایت کو برقرار رکھا ہے۔ صرف ہم بلوچ قوم نہیں بلکہ پوری دنیا ان کو سلام پیش کرتے ہوئے آج یہ سوال اٹھا رہی ہے کیا صرف طاقتور کو یہ حق حاصل ہے کہ سولین آبادیوں پر حملے کرئے؟
پاکستان کے وزیراعظم صاحب کو یہ شک ہے کہ جس طرح اس کی فوجیوں نے دہشت گردوں کو تربیت دے کر ممبئی میں خون کا ہولی کھیلنے بھیجا، یہ بھی اسی طرح کا واقعہ ہوسکتا ہے۔
صاحب آپ کا جھوٹ طشت از بام ہے، اجمل قصاب اور اس کے ساتھی پاکستانی شہری تھے جسے پاکستان میں تربیت دے کر کشتی کے ذریعے دہلی بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے وہاں اتر کر اندھا دھند قتل عام کیا۔ ہوٹل میں گھس کر جسے دیکھا گولیوں سے بھون دیا۔ شہر میں لوگوں کو قتل کرتے رہے کیوں کہ ان کا مقصد ہی دہشت پھیلانا تھا۔
لیکن بلوچ سرمچاروں کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ وہ بھاری ہتھیاروں کا استعمال نہ کریں بلکہ کم نقصاندہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے عمارت پر قبضہ کرکے دشمن کے معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچائیں۔
اس حملے میں جتنے بھی لوگ مارے گئے ان میں بیشتر لوگ خود پاکستانی پولیس کی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔فوٹیجز میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس کے اہلکار دور سے اندھا دھند گولیاں برسا رہے ہیں۔
لیکن بلوچ سرمچاروں نے خنداں پیشانی سے شہادت کو قبول کیا لیکن عام آبادی کو اپنا ڈھال بنانے سے گریز کیا، یہی ان کی تربیت تھی۔
یہ نوجوان بلوچ قوم کے پڑھے لکھے اور انسانیت سے محبت کرنے والے لوگ تھے جنہوں نے اس راستے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔
جب تک پاکستان کا بلوچستان پر قبضہ ہے، بلوچستان مزاحمت کرتا رہے گا اور ہم اپنی مزاحمت کاروں کی غیرمشروط حمایت
کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔