بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بھارت سمیت مہذب دنیا کی سیاسی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچ کی مدد کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
بلوچستان کے موجودہ صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین خلیل بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاستی دہشت گردی گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے زور و شور سے چل رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو غائب کردیا گیا ہے۔ بلوچستان کو پاکستان اور پاکستانی کی ملٹری استبلشمنٹ نے ایک مقتل گاہ بنا دیا ہے۔ یہاں پر صورت حال کافی گھمبیر ہے۔ اگر کوئی آزاد صحافی یا آزاد فورم یہاں آکر تجزیہ کرے تو یہاں انسانیت کی بھیانک شکل نظر آئے گی جوکہ ہمیں معلوم تاریخ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں یا کسی جگہ ایسی صورت نہ ملتا ہو۔ یہاں روزانہ بلوچ سیاسی کارکنوں، بلوچ دانشوروں کو اٹھایا جاتا ہے۔ انہیں غائب کیا جاتا ہے۔ ان کی مسخ لاشیں مختلف ویرانوں میں ہمیں ملتی ہیں۔ یہاں بچے اور عورتیں بھی ریاستی جبر اوردہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قوم پر جو صورت حال گزررہی ہے وہ انتہائی بھیانک ہے اورانسانی توقعات یا انسانی سوچ کے بالکل برخلاف پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ یا حکمرانوں نے بلوچ سرزمین پر گذشتہ بہتر، تہتر سالوں سے یہاں قبضہ کرلیا ہے، اس کے بعد سے یہ تسلسل چلتا آرہا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے اس میں کافی زیادہ شدت آئی ہے۔ جمہوری پارٹیاں یہاں جو جمہوری طرز پر آواز اٹھانا چاہتے ہیں، اس پر نہ صرف قدغن لگایا گیا ہے بلکہ ان کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ یہاں بلوچ کی نسل کشی ہورہی ہے، بلوچ بہت خوفناک صورت حال سے دوچار ہیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ خالصتاََ بلوچستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے اور گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں خالصتاََ نیشنلزم ہے یا نیشنلزم کا بیانیہ ہے، اسے بلوچ نیشنل موومنٹ آگے بڑھارہی ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ پاکستان کے فریم ورک سے ہٹ کر پاکستان کے پارلیمنٹ یا اس کے اداروں کا حصہ نہ بنتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس جددجہد میں ہمارے قائد، لیڈر شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کو 2009 میں پاکستان کی سیکوریٹی فورسز اور اس کے خفیہ اداروں نے ان کے دوستوں لالا منیر اور شیر محمد بلوچ سمیت چھ دن تک ٹارچر سیل میں رکھ کر پھر ہمیں ان کی مسخ لاشیں ہمیں مرگاپ کے مقام پر ملیں۔ بلوچستان میں خالص آزادی کی جنگ چل رہی ہے، آزادی کی ایک جدوجہد چل رہی ہے، جس میں بلوچ قوم کی اکثریت بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کا حصہ ہے، بلوچ قوم کی اکثریت بلوچ نیشنل موومنٹ اور دیگر آزادی پسند جنگجووں کی حمایت کرتی ہے۔
چیئرمین خلیل سے پوچھا کیا گیا کہ آپ پاکستان سے کیوں آزادی چاہتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان سے پہلے ایک آزاد ریاست رہا ہے، پاکستان کے آرمی نے، پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آقاؤں کے آشیر واد سے، جنہوں نے بغیر قوم کے ایک ریاست بنایا، تو ان کے کہنے پر انہوں نے بلوچستان پر قبضہ کرلیا ہے اور روز بہ روز اپنے قبضے کو مضبوط تر کرنے کے لئے یہاں پر بلوچوں کا قتل عام کررہی ہے۔ بلوچوں پر فوجی آپریشنوں کے مختلف دور گزررہے ہیں۔ بلوچوں کی اپنی ایک زبان ہے، اپنا ایک کلچر ہے، اپنی سرزمین ہے تو آزاد رہنا ان کا حق ہے اور وہ آزادی سے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ (بلوچ) پاکستان کے ساتھ یا پاکستان کے فریم ورک میں نہیں رہنا چاہتے ہیں، پاکستان بزور بلوچوں کو اپنے ساتھ تا دیر نہیں رکھ سکتی ہے۔آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور بلوچ من حیث القوم اپنی آزادی کی جنگ لڑرہی ہے اور اپنی آزادی چاہتی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ بھارت آپ کی مدد کرے لیکن پاکستان پہلے ہی بھارت پر الزام عائد کررہا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو مدد کرتا ہے، آپ اس پہ کیا کہیں گے؟ چیئرمین خلیل کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ پاکستان کا بیانیہ کئی دہائیوں سے رہا ہے۔ نہ صرف ہمیں بلکہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی کوئی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو وہ اسے ”را“ پر یا انڈیا پر تھونپ دیتی ہے کہ جی انڈیا انہیں سپورٹ کررہا ہے، لیکن بلوچ جس شدت کے ساتھ جدوجہد کررہی ہے، بلوچ کی جو جغرافیہ ہے بلوچ کا جو نیچر ہے، آج بلوچ اپنے کم طاقت اورصرف اپنے بل بوتے پر پاکستان کو لوہے کے چنے چبوائے ہیں اگر بلوچ کو کوئی بڑی ریاست کی طرف سے سپورٹ ہوگی تو شائد صورت حال اس سے مختلف ہو۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ بھارت سے کس کی طرح چاہتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ صرف بھارت بلکہ پورے مہذب دنیا سے، جتنے ذمہ دارملک ہیں، ذمہ دار سول سوسائٹیز ہیں، ہم ان کی مدد مانگتے ہیں، بلوچوں کی سیاسی و اخلاقی مدد کریں، جو بھی ان کی ذمہ داریاں بنتی ہیں وہ خالص اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں تو شائد اس خطے کی اور بلوچوں کی صورت حال مختلف ہو۔
افغانستان پر بلوچوں کی مدد کے الزام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین خلیل کا کہنا تھا کہ افغانستان خود پاکستان کے پالیسیوں سے، پاکستان کے کرایہ کے قاتلوں سے بہت متاثر ہے۔ پاکستان نے اپنی مذہبی انتہا پسندی کی پالیسی سے افغانستان کو گذشتہ چالیس، پینتالیس سالوں سے ایک مقتل گاہ بنا دیا ہے، لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنی سرزمین کے لئے مارے گئے ہیں، افغانستان کئی دہائیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑرہی ہے، اس سے زیادہ دنیا کے دیگر ذمہ دار ممالک اور طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے وہ آگے بڑھیں، افغانستان کو انٹرنیشنل کمیونٹی، انٹرنیشنل پاورز کی مدد کی ضرورت ہے، افغانستان پر گھیرا تنگ کردیا گیا ہے، آئے روز میڈیا میں دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں پر ایک قتل عام شروع کردیا، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مارے جاتے ہیں، اب تک لاکھوں افغان اپنے سرزمین کے لئے شہید ہوچکے ہیں وہ شائد چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاسکتا ہے جو اس کو کرنا چاہیے تو یہ طاقت ور ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس وحشت کو روکیں۔
اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تو ایک عسکری ریاست ہے، یہاں جو جمہوریت ہے، یہاں جو عدلیہ ہے، ہاں ان کے کچھ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ ہیں یا فورمز ہیں ان کا حشر پوری دنیا کے سامنے ہے کہ کوئی ریاست کے بربریت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اس کا کیا حشر کیا جاتا ہے، تو افسوس یہ ہے کہ جو عالمی فورم ہے، اقوام متحدہ ہے جو بنے ہی اس مقصد کے لئے کہ قوموں کے حقوق یا قوموں پر ہونے والے ظلم یا بربریت روکنا ان کی ذمہ داری ہے لیکن ان کی خاموشی یا ان کی طرف سے جو لاپرواہی ہے، وہ کافی افسوسناک ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ سے سندھی، پشتون اتحاد کے حوالے سے پوچھا گیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے گذشتہ روز ایک میڈیا اسٹیٹمنٹ جاری کیا تھا کہ جو سندھودیش کے لئے لڑرہے ہیں یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں یا وہاں لوگ لاپتہ ہیں یا ”کے پی کے“ میں گذشتہ دنوں پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک رہنما پر قاتلانہ حملہ ہوا یا اس سے پہلے جو مارے گئے یا وہاں انہیں لاپتہ کیا جارہا ہے، تو ان مظلوم قوموں کو ضرورت ہے وہ اپنے بنیادی اہداف یا مشترکہ مسائل ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ہمارا مشترکہ دشمن ہے، اس کے خلاف ہمیں الائنس کی ضرورت ہے، آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور ہم اپنے رابطے جاری رکھیں گے، قوی امید ہے کہ اس ضمن میں پیش رفت ہوگی۔
ان سے پوچھا گیا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کو کس طرح دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں پر قوموں کی نسل کشی کی حد تک جاتے ہیں تو اس قوم میں ایسے ابھار یا خیالات روز بہ روز شدت پاتے ہیں۔ وہ خطرناک شکل اختیار کرتی ہیں تو پاکستان کے بلوچستان میں جو پالیسیاں ہیں یا وہاں بلاتفریق قتل عام کررہے ہیں تو اس کے خلاف ایسا ردعمل متوقع ہے، اپنی آواز کو مختلف طریقے یا مختلف ذرائع سے دنیا تک پہنچانا یا انہیں متوجہ کرنا یا ہماری نسل کشی میں چین براہ راست شریک ہے، ایک سامراجی ریاست ہے اس کی جو توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں، وہ بلوچ زمین پر، بلوچ ساحل پر، بلوچ وسائل پر روز بہ روز اپنی گرفت پر مضبوط کرنا چاہتا ہے تو ایسے (حالات) میں ایسے ردعمل متوقع ہیں، انہیں ہم نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔
چیئرمین خلیل سے سوال کیا گیا کہ کیا اس طرح کے ردعمل میں شدت آسکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ جہاں پر آپ کی آواز کو بزور طاقت یا گولی کے ذریعے دبائی جاتی ہے، بلوچ نیشنل موومنٹ کے سینکڑوں ایسے رہنما ہیں جو جمہوری طریقے سے اپنی جدوجہد کررہے تھے، انہیں شہید کردیا گیا ہے۔ جہاں پر آپ کو بولنے کا حق نہیں ہے، جہاں بولنے پر آپ کو غائب کردیا جاتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹروں کو غائب کردیا جاتا ہے، ہمارے دانشوروں کو غائب کردیا ہے تو ایسی قوموں کے نوجوانوں میں ایسا ردعمل یا ایسے خیالات ابھریں گے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، آپ مطالعہ کرسکتے ہیں کہ بلوچ جدوجہد میں خاص کر مسلح تنظیموں میں تعلیم یافتہ اوریونیورسٹیوں سے ماسٹرز یا ایم فل کے طالب علم محاذوں پر لڑرہے ہیں، وہ شہید ہورہے ہیں تو اس نہج پر انہیں پاکستان کے ریاست نے پہنچایا دیا ہے یا دنیا کی خاموشی نے پہنچا دیا ہے کہ جس جمہوری طریقے سے وہ آواز آگے چاہتے تھے اور پاکستان نے اس آواز کو جس انداز سے دبایا ہے، پاکستان کو ذمہ دار عالمی طاقتوں نے نہیں روکا تو میرے خیال میں یہ دنیا کی تاریخ میں پہلے بھی ہوا ہے۔ آپ بخوبی آگاہ ہیں بھگت سنگھ کی تاریخ سے یا دیگر آزادی کے جنگجووں سے۔