بلوچ نوجوان اور پاکستانیت کا سوچ
تحریر ۔ ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں جب بلوچ قوم نے بلوچستان پر پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو پہلے اس آزادی کی تحریک میں صرف گنے چنے علاقوں سے صرف چند افراد شامل تھے، لیکن جب سیاسی بصیرت سے سرشار بلوچ رہنماؤں نے بلوچستان کی آزادی کے مقاصد کو شعوری انداز میں بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلانے کا فیصلہ کیا تب بلوچ سماج میں جنگ آزادی کی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا ـ اس دوران بلوچ رہنماؤں کی انتھک محنت اور کوششوں کو نہ صرف بلوچ پڑھے لکھے طبقے کو اس آزادی کی تحریک نے متاثر کیا بلکہ جاری تحریک نے بلوچ کے ہر طبقے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا، اس میں چرواہے سے لیکر ماہیگیر، طلباء ، اساتذہ، وکلاء، دانشور اور کسان بلکہ یوں کہیں کہ ہر اس بلوچ نے جنگ آزادی کو کامیاب کروانے کے لیئے لبیک کہا جب اسے محسوس ہوا کہ بہتر زندگی کی تلاش اور آنے والے نسلوں کو دنیا کے ترقی یافتہ قوموں کے صف میں شامل کرانے کی امیدیں صرف آزاد بلوچستان میں ہی مل سکتی ہیں ـ
پہلے جب بلوچ تحریک اندر سے زیادہ مستحکم تھا ایک رفتار کے حساب سے اور ایک دوسرے کے ساتھ کمک و مدد کا سلسلہ بھی جاری تھا تو نوجوان جوق در جوق آزادی کی موجودہ تحریک سے خود کو جوڑنے سے فخر محسوس کرتے تھے ـ بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کے علاوہ انہوں نے بہت حد تک بلوچستان کے ہر طبقہ فکر کو کافی حد تک متاثر کیا تھا اس دوران پاکستانی آرمی، آئی ایس آئی اور دیگر ادارے نوجوانوں کے ہر جگہ تعاقب میں تھے کہ کہیں انہیں پکڑ کر ضرر پہنچائیں لیکن نوجوان تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ جب سن 2010 میں پاکستانی ریاست نے “اٹھاؤ، مارو اور پھینکنے” کی پالیسی تیز کر دی بلوچستان ہر گلی، ہر چوراہے، جنگل، بیاباں اور شہروں میں بلوچ نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور بزرگوں کی پاکستانی آرمی اور ایجنسیوں کے ہاتھوں ٹارچر سیلوں میں تشدد کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگے تب بھی نوجوان نسل مایوس ہونے کے بجائے اپنی تمام تر قدرتی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے نئے انداز میں سامنے آنے لگے ـ
جب پاکستان کی “اٹھاؤ مارو اور پھینکنے” کی پالیسی کے باوجود تحریک آزادی کو کچلنے میں ناکام رہا تو تب انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آزادی کے جہدکاروں کو دباؤ میں لانے کے لئے انکے دوست، رشتہ داروں اور اہلخانہ کو ہراساں کرنا شروع کر دیا، بہت سارے آزادی پسندوں کے خاندان والوں کو جبراً اغوا کرکے انہیں ٹارچر سیلوں میں بند کرنے لگے اور ان پر انسانیت سے عاری سلوک کرنے لگے بہت سارے خاندان والوں تو پاکستانی عقوبت خانوں میں تشدد کی وجہ سے شہید ہوگئے، کئی ایسے زندہ بچ گئے جو عمر بھر اپاہج ہوگئے ـ
مقبوضہ بلوچستان پر پاکستان اپنی سفاکیت تیز کرتا گیا، بلوچستان بھر میں فوجی آپریشنز کا سلسلہ تیز ہوتا گیا لیکن پھر بھی تحریک آزادی کی بنیادی اساس کو دشمن ہلانے میں ناکام رہے ـ
چند باشعور اور سنجیدہ لوگوں نے ہر چند ممکن کوشش کی کہ نوجوانوں کی نہ صرف سیاسی تربیت ہوجائے بلکہ انہیں اپنے سماج اور عوام سے جڑا رہنے کا ہنر بھی سکھایا جائے تو کہ بلوچ سماج کے اندر سامراج کی جانب سے عطا کردہ تمام خرابیوں کو ہٹا کر نئے اور جاندار سماج کی بنیاد رکھ دیں ـ
لیکن دشمن ہر موقعے پر فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچ نسل کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کے لیئے انہیں مختلف طبقوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا، سینکڑوں نوجوانوں کو بلوچستان کی قومی آزادی تحریک سے بدظن و مایوس کرنے کے لیئے انہیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ کہا گیا کہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اس کی بہت بڑی فوج ہے بلوچ کمزور ہیں، بکھرے ہوئے ہیں، اگر بلوچستان پاکستان سے آزاد ہوگیا تو وہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کو چلانے کے قابل نہیں ہیں، آزادی کے بعد بلوچستان میں سرداری نظام پر مسلط کیا جائے گا تمہارے تمام حقوق ضبط کیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دوران بلوچ نوجوان جو کہ پاکستانی اسکول آف تھاٹ سے متاثر تھے، وہ مایوس ہونے لگے جبکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ دشمن کے جانب تحریک کو کمزور کرنے کی ایک منظم سازش ہے ـ دوسری جانب پاکستان بلوچ نئ نسل قومی تحریک سے دور رکھنے کے لیئے ہر چند ممکن کوشش کر رہا ہے اور ان کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کے لیئے انہیں بھول بھلیاں میں مصروف کرنے کی کوشش کر رہا ہے ـ
آخر میں اتنا عرض ہے کہ وقت بہت کم ہےتمام بلوچ رہنماؤں کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرنے علاوہ تحریک آزادی کو منزل مقصود پہنچانے کے لئے اپنی بلوچ عوام اور خاص کر نئی نسل کو اچھی سیاسی و شعوری تربیت کرنے کے لیئے ان کے مایوس روحوں کے اندر نیشنلزم کا حقیقی جوہر ڈالنا ہوگا جو کہ وہ اپنی قومی شناخت و بقا کی خاطر قبضہ گیر ریاست کی سازشوں کے گرداب میں پھنسنے کے بجائے اپنے بہتر مستقبل( آزاد بلوچستان) کا فیصلہ کرنے میں خود قابل ہوجائیں ـ
دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔