کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم بلوچ لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4016 دن مکمل ہوگئے۔
بھوک ہڑتالی کیمپ میں اظہار یکجتی کرنے والوں میں بی ایس او سے امیر داد بلوچ، بلخ شیر بلوچ اور دیگر مرد اور خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں آئے روز بلوچوں کو لاپتہ کرنا اور ٹارچر سیلوں میں شدید تشدد کے بعد قتل و مسخ شده لاشوں کی برآمدگی سے بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی بنگالیوں کی نسل کشی کی یاد تازہ ہورہی ہے۔پاکستانی جارحیت کی ننگی صورت دنیا کے سامنے عیاں ہے مگر بدقسمتی سے دنیا کے اپنے مفادات ہیں۔ ان کے پاس مظلوموں کے خون سے زیادہ انکی مفادات اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کی خاطر خاموش ہیں۔ اسی طرح کارپوریٹ میڈیا بھی سب کچھ اپنے ریٹنگ اور کاروبار کو سامنے رکھ کر کرتا ہے اور میڈیا کے مفادات بھی ملکوں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لیے اس مفادات کی دنیا میں بلوچ جیسے مظلوم قوموں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے، اس کارپوڑیٹ ورلڈ میں کسی بھی قوم پر روا رکھے جانے والے ظلم دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کہ جہاں عالمی طاقتوں کی مفادات وابستہ نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ بلوچ سیاسی پارٹیوں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپسی اختلافات پس پشت رکھ کر کم از کم بلوچ نسل کشی، بلوچستان میں فوجی آپریشن و بلوچ فرزندوں کی آرمی کے ہاتھوں اغوا تشدد بعد قتل کے معاملے میں یکجا ہوکر کچھ نہیں تو ایک مشترکہ احتجاج کریں مگر بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی ہمارے دوست یکجا نہیں ہیں تو دنیا سے کیا گلا کرے۔
ماما قدیر نے مذید کہا کہ آخر میں میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اقوام متحده و دیگر عالمی اداروں کی بلوچ نسل کشی پر خاموشی پوری انسانیت کے لیے نقصان کا باعث ہوگا کیونکہ ظلم پر خاموشی مزید ظلم کو جنم دیگا۔ بلوچ یقیناً پاکستانی مظالم کو سہہ رہا ہے مگر یہ صرف بلوچ قوم کے لیے ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک عالمی سانحہ ہے۔