بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4017 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ڈاکٹر حئی بلوچ، شاہ زیب ایڈوکیٹ، چنگیز ایڈوکیٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرمین مہم خان بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے دعویداروں کی طویل بیان بازی میں ایسا تاثر سامنے آتا ہے کہ وہ ریاستی یا حکومتی اقدامات جو مروجہ آئین کے منافی ہیں، کی خلاف ورزی ہی قابل تنقید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کسی کو آئینی قانونی تقاضے پورے کرکے پابند سلاسل یا قتل کرتے ہیں تو پھر وہ انسانی حقوق کی پامالی قرار نہیں پائے گی یوں اس بنیادی حقیقت سے آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں کہ جس آئین کو مقدس قرار دے کر اس کی سفاکیت، جانبداری پر پردہ ڈالا جاتا ہے وہ آئین ایک مخصوص بالادست قوم اور حکمران طبقے کے مفادات کا پاسدار اور ترجمان ہوتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ مذکورہ آئین کے تحت عدلیہ سمیت ریاست کا ہر ادارہ محکوم قوموں اور استحصال زدہ محنت زدہ عوام کے ساتھ اختیار کیئے گئے فکر عمل میں نمایاں جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے جس کا عکاس لاپتہ افراد کے نازک انسانی مسئلے پر عدالتی حکومتی بشمول پارلیمنٹ کے کردار میں دیکھا جاسکتا ہے۔