بلوچ سسیوں کے سفر کے دوراں لطیف نہیں تھا
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
گیا رہ سال کے چھوٹے معصوم پیر دس سال پہلے اس موبائل فون میں محفوظ ہیں، جو موبائل فون دردوں کی طرح اب گھر پر پڑا ہے۔ پر کیا سمی بلوچ کے درد بھی گھر میں کسی گھٹڑی میں بندھے رکھے ہیں؟
درد تو ساتھ ہوتے ہیں سفر کی طرح
درد تو ساتھ دیتے ہیں سانسوں کی طرح!
لطیف نے بھی تو سمی بلوچ کی ترجمانی کی ہے کہ
،،جب سب ساتھ چھوڑ گئے
جب بھی اے درد تو میرے ساتھ تھا!،،
اور درد اب بھی سمی بلوچ کے ساتھ ہے جب وہ شعور بھری ہو چکی ہے
جب سب اس کے ساتھ ہیں۔اب جب وہ بس رو نہیں سکتی پر اپنے درد کو اظہار بھی سکتی ہے۔ اپنے درد کو بس بولے الفاظ میں کہہ نہیں سکتی پر اس درد کو رقم بھی کر سکتی ہے۔ بس درد کو رقم نہیں کر سکتی ہے
پر آگے طاقتور حلقوں کو یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ
،،میرا بابا تمہا رے پاس ہے!،،
وہ سمی بلوچ جو مہلب کی بہن ہے
وہ سمی بلوچ جو ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی ہے
وہ سمی بلوچ جو درد کو جان گئی ہے۔
وہ سمی بلوچ جو اب آپ درد بن چکی ہے
اس سمی بلوچ کے معصوم پیر، جب وہ گیا رہ سال کی تھی اور ان دیکھی منزل کی مسافر بنی تھی۔ جس سفر میں کوئی جت نہیں تھا جو اپنا اونٹ اس معصوم کے حوالے کرتا اور خود اس اونٹ کی رسی تھامے آگے چلتا رہتا، نہیں اس سفر میں ایسا کچھ نہ تھا۔ سمی آپ ہی سفر تھی اور آپ ہی راستہ!
وہ سفر دردوں کا سفر تھا۔ وہ سفر ایسا سفر تھا جس میں ہر قدم پر درد منہ پھاڑے مسافروں کے منتظر رہتے!
ایک سسئی کے سفر کو لطیف نے پہاڑوں سے لیکر پتھروں تک
کتابوں سے لیکر دلوں تک محفوظ کر دیا ہے
پر وہ بلوچستان کی سینکڑوں سسیاں جو اپنے اپنے پنہوں کی متلاشی تھیں ان کے سفر کو تاریخ کا حصہ بنانے کے لیے کوئی لطیف دھرتی پر نہیں اترا!
اور باقی جتنے بھی قلم کے دھنی تھے وہ تو سب،، bastard of pakistanتھے!،،
اگر ان باسڑڈوں کو اردو کا لبادہ پہنایا جائے تو کیا میں یہ لکھوں؟
،،پاکستان کے حرامی!،،
لطیف تو تھا نہیں جو ان،،جبل جھانگتی،،پہاڑوں کو روندتی کو دیکھ کر کوئی سسئی جیسا سُر لکھتا
باقی جو قلم کے دھنی تھے وہ سب گاندھی جی کے بندر بن بیٹھے تھے کہ
،،بُرا مت دیکھو
بُرا مت کہو
بُرا بت سنو!،،
تو ان سسیوں کے دردوں کو زباں کون دیتا اور کل آنے والے مورخ کو کون بتاتا کہ ان بلوچ سسیوں نے اپنے پنھوں کی تلاش میں سیکڑوں نہیں ہزاروں کلومیٹر طویل سفر اپنے ننگے پیروں سے تن تنہا کیا تھا۔ ایک دو نہیں پر ہزاروں پتھروں کو اپنے نازک پیروں کے نیچے برداشت کیا تھا، ایک دو نہیں پر کئی کئی پہاڑی سلسلے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور انہیں پار بھی کیا۔
پر افسوس کہ لطیف ان کے ساتھ نہیں تھا۔ لطیف ان کے دلوں کی ترجمانی نہیں کر رہا تھا، لطیف ان کے درد نہیں لکھ رہا تھا۔ لطیف نے تو ایک سسی کے لیے پتھروں کو رُلا دیا تھا
،،ڈونگر مون سین روئے
کڈھی پار پنھوں جا!،،
،،پتھروں ساتھ نہیں چل سکتے ہو تو نہ چلو
پنھوں کے لیے میرے ساتھ رو تو سکتے ہو
پھر پتھر سسئی کے ساتھ شروع ہوگئے تھے
لطیف پاکستان کا باسٹرڈ نہیں تھا۔ لطیف سرکاری پینشن خور نہیں تھا۔ لطیف ادبی سنگت کا غلام نہیں تھا۔
لطیف سرکاری مراعات یافتہ ادیب نہیں تھا۔ لطیف کو کسی کرسی کا لالچ نہیں تھا، لطیف، لطیف تھا جبھی تو اس کے کہنے پر پتھر بھی سسی کے ساتھ روئے۔
پر سمی بلوچ سے لیکر ان سیکڑوں بلوچ سسیوں کو اس ملک اور بلوچستان میں کوئی ایسا ملا ہی نہیں جو ان کے دردوں کو رقم کرتا، بھلے وہ پہاڑوں اور پتھروں کو نہ رُلاتا۔ بھلے وہ ان بلوچ سسیوں کے ساتھ اپنے قدم ملا کر نہ چلتا۔ پر وہ اپنے قلم سے ایسا تو کچھ لکھتا کہ کل آنے والا مورخ اس سچ کو سن کر پڑھ کر دیکھ کر تاریخ کا دھارا موڑ سکتا
پر اب کچھ بھی نہیں!
سوائے ان معصوم پیروں کے نقش کے جو سمی بلوچ کے پیر ہیں
جو کراچی سے کوئٹہ
اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک چل کر شدید زخمی ہو چکے ہیں
ہم جانتے ہیں وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں
پر درد نہیں مٹتے
سمی بلوچ کے وہ گیارہ سالہ معصوم پیر تو اب بڑے ہو گئے ہیں
اب ان پیروں میں پانچ نمبر کے جوتے نہیں آتے
اب وہ پیر گیارہ سالہ سمی بلوچ کے نہیں پر بائیس سالہ سمی بلوچ کے ہیں
اور ان پیروں کے وہ زخم بھی بھر چکے ہیں
جو زخم سمی بلوچ کے پیروں کو جب آئے تھے، جب وہ اپنے پیروں، جسم اور روح سمیت مسافر بنی تھی
درد تو اب بھی اس کے ساتھ ہے
روح تو اب بھی اس کی گھائل ہے
پر وہ پیر بھر چکے ہیں جو پیر بابا کی تلاش میں زخمی ہو ئے تھے
پر کون جانے کہ سمی بلوچ کے وہ معصوم پیر زخمی بھی ہوئے تھے اس لیے سمی بلوچ نے اپنے زخمی پیروں کو
اپنے درد کو
اپنی زخمی روح کو
اس موبائل فون میں مقید کر دیے ہیں جو موبائل فون اب سمی کے گھر میں دیگر سامان کے ساتھ ایک گھٹڑی میں بندھا رکھا ہے۔
سمی بلوچ کے وہ زخمی پیر
ایک گواہی ہے
ایک شاہدی ہے!
تاریخ کے مورخوں کو دکھانے کے لیے کہ جب سمی بلوچ اپنے بابا کو تلاش کرنے نکلی تھی تو پو رے بلوچستان اور پاکستان میں ایک بھی لطیف جیسا نہیں تھا جو ان کے ساتھ سفر کرتا، جو ان کے درودں کو دیکھتا جو ان کے دردوں کو لکھتا جو ان کے دردوں کو دیکھ کر پتھروں کو زباں دیتا
کوئی نہیں تھا
بس دوونوں طرف bastardتھے لکیر کے اس طرف بھی
اور لکیر کے اُس طرف بھی!
کاش بلوچ سسیوں کے سفر کے دوراں
پھر سے لطیف آتا
اور معصوم سمی کے زخمی پیر دیکھ کر
ایسا کچھ لکھتا کہ راستے سے پتھر ہی ہٹ جاتے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔