بس اتنا تو بتادو، ان ماؤں کویہ کون ہیں؟ – محمد خان داؤد

200

بس اتنا تو بتادو، ان ماؤں کویہ کون ہیں؟

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ان ماؤں کو جو مضطرب ہیں
جو دکھی ہیں، جو حال میں نہیں جو اپنے بیٹوں کو تلاشتے تلاشتے خود خبر بن گئی ہیں
بس یہ تو بتا دو کہ ان کے نام کیا تھے؟
یہ بلوچستان کے کس علائقے سے تھے؟ ان کی رنگت کیا تھی؟
اور جب یہ گھر سے اُٹھائے گئے تو ان کے جسموں پر کس رنگ کے کپڑے تھے
اور جب یہ مارے جا رہے تھے تو ان کے جسموں پر کس رنگ کے کپڑے تھے
ان ماؤں کو یہ تو بتا دو کہ وہ اب نہیں لوٹیں گے
وہ کیوں نہیں لو ٹیں گے یہ بھی ان ماؤں کو بتا دو؟
وہ منتظر مائیں!
وہ روتی مائیں
وہ بلوچ مائیں!
وہ اداس مائیں
وہ مر مر کر جینے والی مائیں
وہ جی جی کر مرنے والی مائیں
وہ مسافر مائیں
وہ آپ ہی سفر
اور آپ ہی منزل مائیں
وہ گم شدہ منزل مائیں
بس ان ماؤں کو اتنا تو بتا دو کہ وہ نہیں آئیں گے
اور وہ کیوں نہیں آئیں گے؟
یہ بھی بتا دو!

گم شدگان حال، اسیران وقت کے لیے تو سندھ میں یہ بہت ہی اچھا وقت ہے کہ ما سوائے ایک دو کہ باقی اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں، جن گھروں میں ان کی مائیں اذیت بھرا انتظار کرتے کرتے گذر گئیں باقی ان گھروں میں محبوبہ جیسی جیون ساتھی اور ان کے بچے ان باباؤں کی راہ تکتے تھے اور ہر روز اک نئی عذاب کا سامنا کرتے تھے۔ اگر کوئی نیا عذاب نہ بھی ہو تب بھی گمشدگی سے بڑا عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ جس میں محبوبہ جیسی دوست رونا چاہے تو رو نہ سکے۔ گھر میں موجود بوڑھی ماں رونے کا بہانا تلاشتی پھرے اور جب رات کی سیاہی میں بچے مایوس ماں کا اداس چہرہ دیکھ کر سو جائیں تو وہ محبوبہ جیسی ماں اپنے بستر میں اسے یاد کرکے بہت روئے، جس سے کتابوں اور اس لڑکی سے بہت محبت تھی۔ جس لڑکی کو وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ تم بھی ہو بہ ہو کوئی کتاب ہو، جب وہ کتاب کا نام سنتی تھی تو اسے ان سب کتابوں سے بہت کوفت ہوتی تھی، جو وہ گھر میں موجودگی کے وقت پڑھا کرتا تھا اور وہ اس سے کتاب چھین کر کہتی تھی، ان موٹی کتابوں کو پرے پھینک دو میں تمہا رے پاس ہوں مجھے دیکھو،، پھر وہ اسے اپنے بانہوں میں بھر کر محبت سے چومتا تھا تو وہ شرما جاتی۔

وہ جو کل کتابوں سے جلتی، آج بھی اسے وہ کتاب جلا رہے ہیں۔ کل وہ کتاب اسے اس لیے جلاتے تھے کہ کتابوں کی موجودگی میں وہ اسے ٹائم نہیں دے پاتا تھا اور آج اسے یہ کتاب اس لیے جلا رہے ہیں کہ کتاب تو ہیں پر وہ نہیں اور ان ادھ پڑھے کتابوں میں اس کی خوشبو آتی ہے۔ ان کتابوں میں اس کا لمس آج بھی موجود ہے۔ تو وہ بہت روتی ہے۔

دوسری ٹوٹی ہو ئی چار پائی پر وہ ماں بھی چپکے چپکے روتی رہتی ہے۔ جسے بہت رونا تھا۔ پر اسے رونے کا بہانا ہی نہیں ملتا۔ وہ گھر میں سب سے بڑی ہے، اگر وہی رونے بیٹھ جائے تو ان بچوں کو کون دلاسہ دے گا؟ جو بن بابا کے ایسے کملا گئے ہے، جیسے گھر کے آنگن میں لگے وہ پھول جنہیں کوئی توجہ نہ دے۔

تو رات کی تاریکی اور آخری پہروں میں وہ ماں بھی اپنے بیٹے کو یاد کر کے بہت رو تی ہے، جس ماں کو اپنے بیٹے سے محبت ہی نہیں تھی پر اس ماں کو اپنے بیٹے سے عشق تھا۔ بچوں کے درمیان وہ محبوبہ اشک بہاتی ہے اور گھر کے آنگن میں وہ ماں۔

دونوں ایک دو سرے کی سسکیوں سے واقف ہو تے ہیں پر دونوں ایک دو سرے کو خاموش کرانے کا دلاسہ بھی نہیں دیتے۔ رات ڈھلتی رہتی ہے۔ پر غم نہیں ڈھلتا۔ رات ختم ہونے کے قریب ہو تی ہے۔ پر درد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ رات ڈھلنے کے بعد دن کا اجلا ہوجاتا ہے۔ پر ان کا دکھ ایسا ہوتا ہے جس دکھ میں دن بھی کیا اور رات بھی کیا۔ اندھیرہ بھی کیا اور اجلا بھی کیا۔ ان کی تاریک زندگی میں سینکڑوں سحر ہوئی ہیں۔ پر پھر بھی وہ سحر نہیں ہو تی، جس کا وعدہ ہے۔ کیوں؟

وہ مائیں اور محبوبائیں تواپنے کاندھوں پر کئی برسوں سے مایوس مسیح کی اداس صلیب لیے پھر رہی ہیں پر کوئی ایسا نہیں آتا جو ان کمزور اور ناتواں کے چھلتے زخمی ہوتے کاندھوں سے وہ صلیب ہی اتار دے جو غم کی صلیب ہے۔ جو مایوسی کی صلیب ہے۔ جودرد کی صلیب ہے۔ جو اپنوں کو اپنوں سے دور کرنے کی صلیب ہے۔ جو مانگ کو سونا کر جانے کی صلیب ہے۔ جو آنکھوں کو اشک بار کر جانے کی صلیب ہے۔ جو بچوں کو اداس کرجانے کی صلیب ہے۔ جو محبوباؤں کوزندہ درگور کرنے کی صلیب ہے۔ جو ماؤں کو رلانے کی صلیب ہے۔ سندھ میں اب وہ کاندھے مصلوب نہیں۔ سندھ میں ان کمزور کاندھوں سے بار مسیح اتر چکا ہے۔ پر بلوچستان میں کون آئے گا جو ان ناتواں کمزور کاندھوں سے مایوس مسیح کی اداس صلیب اتارے گا؟ جس صلیب نے بس گھروں میں موجود ماؤں کو ہی نہیں، راہ تکتی محبوباؤں کو ہی نہیں، معصوم بے سمجھ بچوں کو ہی نہیں، پر ان بہنوں کو بھی مصلوب کیا ہوا ہے جو اپنے بھائیوں کی متلاشی ہیں، جو اپنے بھائیوں کو تلاش کرنے ان پہاڑوں سے آئی ہیں، جن پہاڑوں کے دامنوں میں موجود ان گھروں میں ان بھائیوں کی بہت سی کتابیں انہیں بہت بے چین کرتی ہیں۔ ان گھروں میں انہیں ایسے معلوم ہوتا کہ وہ یہی کہیں ہیں۔ پر جب وہ انہیں نظر نہیں آتے تو آنکھیں ہی کیا پر ان کی روح تک اشک بار ہو جاتی ہے۔ ان بہنوں کو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصلوب کر دی گئی ہیں، لگتا نہیں پر وہ مصلوب کر دی گئی ہیں۔

وہ اپنے بھائیوں کے پیار میں مصلوب ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کی یادوں میں مصلوب ہیں۔ وہ ان کی گم شدہ آوازوں میں مصلوب ہیں۔ بہت سال بیت گئے ہیں۔ اب تو ان کے روتے نینوں سے ان کے نقش بھی مٹتے جا رہے ہیں۔ یادوں سے بھائیوں کے نقش کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور بار صلیب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کون آئیگا اور کون ان کے کاندھوں سے مایوس مسیح کی صلیب اتارے گا؟

کون جاتا ہے ان پہاڑوں کے دامنوں میں؟ کون آتا ہے ان پہاڑوں کے دامنوں سے؟ ان پہاڑی گھروں کو تو اپنے آپ کی بھی خبر نہیں ہو تی۔ ان پہاڑوں میں تو بہاروں کا گزر بھی نہیں۔

ہوسکتا ہے کبھی کوئی بہار کا جھونکا ان پتھروں سے گزرا بھی ہو۔ پر اب تو اک زمانے سے ان پہاڑوں میں خزاں ایسے ٹہر گئی ہے جیسے بوڑھی ماں کے بوڑھے خشک گالوں پر آنسوؤں کی لکیر۔

پر جن ماؤں کے بچے بہت سی کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ یاتو دیوانے ہو جاتے ہیں یا انقلابی۔ وہ پہاڑی بچے بھی بہت سی کتابیں پڑھتے تھے۔ ان کتابوں نے انہیں بھی پہلے انقلابی بنایا پھر دیوانہ۔

وہ گھروں کو کب لوٹے گا؟ بھلے سب جانتے ہوں۔ پر وہ مائیں نہیں جانتی جو بہت تیزی سے ان کی یاد میں اپنا نور کھو رہی ہیں۔ اور وہ بہنیں بھی نہیں جانتی جن کے ہاتھوں میں ان کے کئی سالا پرانی تصویریں ہیں اور وہ بلوچستان کے بہت ہی مختصرسے شہر کوئٹہ میں بہت سا چل کر اس پریس کلب کے در پر بیٹھ جاتی ہیں جس در میں جانے والا کوئی گڑنگ صحافی تو رہا ایک طرف پر ان سے کوئی جگاڑی صحافی بھی کوئی حال نہیں پوچھتا۔ اگر کوئی پیلی صحافت نما اخبار بھی ان کا حال پوچھتا تو دوسرے دن وہ اخبار اپنے من سے گیلا گیلا ہوتا۔جس پیلی اخبار میں یہ خبر لگتی کہ ،،دشت تو دشت،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے!،،

ایسی جرئت کس اخبار میں ہے؟ نہ حقل میں اور نہ ان خباروں میں جو چھوٹے چھوٹے سے قصبوں سے کئی کئی ماہ کے وقفے کے بعد شائع ہوتی ہیں اور ان کا موالی ایڈیٹر جو مالک بھی ہوتا ہے اور ایڈیٹربھی! دس اخباروں کا بنڈل لیے وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی اتنی وصولی ہو جا تی ہے جس وصولی میں مائیں بھی ڈوب جا تی ہیں!
بہنیں بھی ڈوب جا تی ہیں!
محبوبائیں بھی ڈوب جا تی ہیں!
بچے بھی ڈوب جا تے ہیں!
درد بھی ڈوب جا تے ہیں!
سارے ماتم بھی ڈوب جا تے ہیں!
سب صبحیں سب شامیں بھی ڈوب جا تی ہیں!
پہاڑوں میں موجود اداس گھر بھی ڈوب جا تے ہیں!
کئی کتابیں، دیوانگی، پاگل پن، انقلابیت بھی ڈوب جا تی ہے!
صلیب بھی ڈوب جا تی ہے!
اور مایوس مسیح بھی ڈوب جاتا ہے!!!
پر مصلوب مائیں نہیں ڈوبتیں!
درد پھر بھی رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے والے کل کی طرح،چھاجانے والی رات کی طرح!
بس اتنا تو بتادو تو یہ کون ہیں؟
ان ماؤں کو جو مضطرب ہیں
جو دکھی ہیں، جو حال میں نہیں جو اپنے بیٹوں کو تلا شتے تلا شتے خود خبر بن گئی ہیں
بس یہ تو بتا دو کہ ان کے نام کیا تھے؟
یہ بلوچستان کے کس علائقے سے تھے، ان کی رنگت کیا تھی؟
اور جب یہ گھر سے اُٹھائے گئے تو ان کے جسموں پر کس رنگ کے کپڑے تھے
اور جب یہ مارے جا رہے تھے تو ان کے جسموں پر کس رنگ کے کپڑے تھے
ان ماؤں کو یہ تو بتا دو کہ وہ اب نہیں لوٹیں گے
وہ کیوں نہیں لو ٹیں گے یہ بھی ان ماؤں کو بتا دو؟
وہ منتظر مائیں!
وہ روتی مائیں
وہ بلوچ مائیں!
وہ اداس مائیں
وہ مر مر کر جینے والی مائیں
وہ جی جی کر مرنے والی مائیں
وہ مسافر مائیں
وہ آپ ہی سفر
اور آپ ہی منزل مائیں
وہ گم شدہ منزل مائیں
بس ان ماؤں کو اتنا تو بتا دو کہ وہ نہیں آئیں گے
اور وہ کیوں نہیں آئیں گے؟
یہ بھی بتا دو!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔