بارکھان اور بلوچ قومی تحریک – بالاچ کھیتران بلوچ

1253

بارکھان اور بلوچ قومی تحریک

تحریر : بالاچ کھیتران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بارکھان کا نام لیتے ہی آپ کے ذہن میں کھیتران قبیلہ آتا ہے، کیوںکہ بارکھان میں کھیتران قبیلے کی اکثریت آباد ہے، پہلے ہم تاریخ کے حوالے سے کھیتران اور بارکھان کا مختصر تاریخی جائزہ لیں گے، اسکے بعد دیکھیں گے آج بارکھان اور کھیتران “بلوچ قومی تحریک” کے حوالے سے کیوں خاموش ہیں۔ بارکھان کا تاریخی نام جنگجاہ تھا یعنی کہ جنگ کی جگہ، اسی مٹی نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد اختیار کرنے والے بلوچ یعنی کہ میر مسری خان کھیترانڑ کو جنم دیا، اب آتے ہیں کھیتران قبیلے کی طرف تاریخ کے حوالے سے ہمارے سامنے کھیترانڑ قبیلے کی بہادری کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ بگٹی اور مری کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد ہو یا پھر نوری نصیر خان کی فوج کے ساتھ مل کر سکھوں کے خلاف جنگ ہو یا پھر چاکر اعظم کی کمک ہو، آپکو تاریخ میں کھیترانڑ کا نام لازمی ملتا ہے، یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ بارکھان اور کھیترانڑ قبیلے نے تاریخ میں ہر محاذ پر بلوچ قوم کا ساتھ دیا مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کے بارکھان اور کھیترانڑ قبیلے کو کیا ہوگیا کہ بلوچ اور بلوچستان کے ہر سنگین مسئلے پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، اس چپ کے روزے کی بہت سی وجوہات ہیں، ان وجوہات میں سرفہرست کھیترانڑ قبیلے کے سردار ہیں، چاہے وہ سردار انور جان کھیترانڑ تھے یا پھر سردار عبدالرحمان کھیترانڑ ہیں، دونوں نے کھیترانڑ قبیلے کو بلوچ قوم کے مسائل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

سردار انور جان نے 15 جولائی 1973 کو بھٹو اور جام کے ساتھ مل کر نیپ کی حکومت کا خاتمہ کردیا، اب آتے ہیں موجودہ سردار عبدالرحمان کھیترانڑ پر جنہوں نے اپنے پچیس سالہ دور حکومت میں کوئی اچھی یونیورسٹی اور کالج تو نہیں دیا مگر کھیترانڑازم کا اتنا پر چار کیا کہ کھیترانڑوں نے اپنے نام کے ساتھ بلوچ کو چھوڑ کر کھیترانڑ لکھنا شروع کر دیا اور کھیترانڑ کو ایک قوم کہنا شروع کردیا۔ سردار کھیترانڑ نے بلوچ سرمچاروں کی آزادی کی جنگ کو قبائلی جنگ قرار دیا یعنی کہ آزادی پسند سرمچاروں کو مری ، بگٹی کی جنگ قرار دیا اور جب بھی مری اور کھیترانڑ کی شاخوں کی ایک ساتھ خلش پیدا ہو جاتی تو سردار صاحب پیٹرول ڈال کر اسے اور بڑھاتے اور اسے پورے قبیلے کی جنگ قرار دے کر سادہ لوح لوگوں کو بلوچ سرمچاروں سے دور رکھتے ہیں، اگرچہ عام لوگوں نے اپنی بساعت کے مطابق مری ، بگٹی قبائل کی مدد کی چاہے وہ 1970 کی جنگ ہو یا 2006 کی، یہی وجہ تھی کہ 2005 سے ایجنسیز بھی سردار صاحب پر بہت مہربان ہوئے اور سردار کو کھیترانڑوں کے لیے یمراج بنا دیا اور انہیں اتنی اجازت دے دی گئی کہ کھیترانڑ قبیلے کو مارو، کاٹو لاپتہ کر دو یا پھر انکی ماوں بہن کو دن دھاڑے اٹھا لو آپکو کوئی کچھ نہیں کہے گا لیکن کھیترانڑ قبیلے کا کوئی فرد بھی بلوچ تحریک میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔

سردار کھیترانڑ جوتے پالش میں اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ پورا بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پر سڑکوں پر تھا لیکن سردار صاحب پاکستان کا جھنڈا سینے پر لگائے روڈوں پر پاکستان کے لیے نعرہ بازی کررہے تھے، اسی لیے آج بھی بارکھان کا ایم پی اے سردار عبدالرحمان ہے اور اسی جام کے بیٹے جام کا ساتھی ہے جسکا 1973 میں سردار انور جان نے ساتھ دیا تھا۔

دوسری بڑی وجہ کھیترانڑی زبان ہے، جس نے کھیترانڑوں کو بلوچ تحریک سے دور رکھا ہوا ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کھیترانڑوں پر کھیترانڑازم کا اتنا کام ہوچکا ہے کہ وہ اس سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے ہیں۔

تیسری بڑی وجہ بارکھان میں شعوری تنظیموں کا فقدان ہے، اگر ہم بارکھان کو مکران کے ساتھ کمپیئر کریں تو جتنا کام مکران میں تنظیموں نے کیا ہے اسکا ایک فیصد بھی بارکھان میں کام نہیں ہوا، جن لوگوں پر کام ہوا بھی ہے وہ آج خود کو این پی  بی این پی اور این ڈی پی میں ضائع کر رہے ہیں۔

اور چوتھی بڑی وجہ سیکورٹی فورسز کی حکمت عملی ہے یعنی سیکورٹی فورسز جو کام باقی بلوچستان میں خود کرتی تھیں وہی کام بارکھان میں سردار عبدالرحمان سے کرواتے اور بارکھان کی عوام کے سامنے یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ ان کاموں سے لاتعلق ہیں اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جیسے عوام آج سردار کے مخالف ہیں تو آج عوام سیکورٹی فورسز کے اتنے ہی خلاف ہوتی اور نتیجہ کچھ مختلف ہوتا۔

یہ وجوہات صرف کھیترانڑ قبیلے کی نہیں بلکہ کوہ سلیمان کے تمام قبائل کی ان وجوہات سے ملتی جلتی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج یہ قبائل قومی جنگ میں پیچھے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ تاریخ لڑنے والوں کی لکھی جاتی ہے سر جھکا کر دم ہلانے والوں کی نہیں۔

وجوہات کو پیچھے چھوڑ کر، اب آتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کا شعور شمال مشرقی بلوچستان اور کوہ سلیمان کے قبائل میں کیسے پھیلایا جائے؟ اسکے لیے ہمیں قول سے زیادہ فعل پر توجہ دینا ہوگا، ہر باشعور مردوعورت نے قومی مسئلے کے لئے عملی جدوجہد کرنا ہوگی اور یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ جب تک ہم خود کو مسلح جدوجہد کے لیے حاضر نہیں کریں گے تو یہ رکاوٹیں آتی رہینگی ، ہمیں ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لئے شمال مشرقی بلوچستان اور کوہ سلیمان کے قبائیل کو بلوچ قومی تحریک میں شامل کرنا ہوگا اور اس کے لئے ایک پراپر حکمت عملی بنانی ھوگا، اور ان قبائل کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بننا ہوگا۔ تب جاکر قابض پر پریشر بڑھے گا اور اس کی طاقت تقسیم ھوگی۔ جو آج اپنی ساری توانائی مکران پر لگا رہا ہے تو کل قابض کو نہ چاہتے ھوۓ بھی شمال مشرقی بلوچستان اور کوہ سلیمان پر اپنی توانائی خرچ کرنا پڑے گا، جس سے قابض کی معاشی و افرادی قوت بٹ جائے گی اور اسے شکست فاش ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔