ایران و چین تجارتی اور دفاعی سطح پر ایک دوسرے کو تعاون کرینگے

196

ایران اور چین نے خاموشی سے ایک شراکت داری کا مسودہ تیار کر لیا ہے جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی اور دفاعی سطح پر وسیع تعاون کریں گے-

یہ معاہدہ ایران کے توانائی سمیت باقی سیکٹرز میں چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ مجوزہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی ان کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا جن میں وہ ایرانی حکومت کے جوہری اور عسکری مقاصد کو بنیاد بنا کر ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

شراکت داری پر مبنی یہ مسودہ 18 صفحات پر مبنی ایک مجوزہ معاہدہ ہے جو ایران میں بینکنگ، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز اور درجنوں دوسرے منصوبوں میں چین کے کردار میں اضافہ کرے گا۔

ایک ایرانی عہدیدار اور تیل کے تاجر کے مطابق اس کے بدلے چین اگلے 25 سال تک ایران سے متواتر اور خصوصی رعایتی قیمت پر تیل حاصل کرے گا۔

نیو یارک ٹائمز کی جانب سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق اس معاہدے کے تحت ایران اور چین کے درمیان عسکری تعاون اور چین کو ممکنہ طور پر اس خطے میں قدم جمانے کا موقع بھی ملے گا جہاں امریکہ دہائیوں سے تزویراتی مقاصد کی وجہ سے موجودگی رکھتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تربیتی مشقیں، مشترکہ ری سرچ اور ہتھیاروں کی تیاری سمیت خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی ہو گا۔ جس کا مقصد ’دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا، منشیات اور انسانی سمگلنگ کا خاتمہ اور سرحدی علاقوں میں جرائم پر قابو پانا ہو گا۔

اس شراکت داری کی تجویز سب سے پہلے چینی صدر شی جنگ پنگ نے 2016 میں اپنے دورہ ایران کے دوران دی تھی جس کی منظوری ایرانی صدر حسن روحانی کی کابینہ نے جون میں دی ہے۔ اس بات کا اعلان ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ ہفتے کیا ہے۔

اگر یہ معاہدہ تفصیلات کے مطابق عمل میں آتا ہے تو یہ شراکت داری چین اور امریکہ کے درمیان خراب ہوتے تعلقات میں ممکنہ طور پر مزید تنازعات کا باعث بن سکتی ہے

یہ ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے حوالے سے اس جارحانہ حکمت عملی کو ایک زبردست ضرب ہو گی جو انہوں نے باراک اوبامہ کی صدارت کے دوران دو سال تک طویل مذاکرات کے بعد 2015 میں کیے جانے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کے بعد اپنا رکھی ہے۔

امریکہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیاں اور کمپنیوں کو ایران سے کسی قسم کا لین دین کرنے کی صورت میں بین الااقوامی بینکاری نظام تک رسائی سے محروم کرنے کی دھمکی نے ایرانی معیشت پر شدید دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے اور اشد ضروری بیرونی سرمایہ کاری اور تجارت نہیں ہو پا رہی۔

لیکن تہران کی مجبوری نے اسے چین کے قریب کر دیا ہے۔ چین جس کے پاس ٹیکنالوجی ہے اور اسے تیل بھی درکار ہے جیسا ایران چاہتا ہے۔

ایران دنیا میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن اس کی برآمدات جو اس کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں صدر ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث بہت کم ہو چکی ہیں۔

چین اپنی ضرورت کا 75 فیصد تیل بیرون ملک سے منگواتا ہے اور دنیا میں تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین نے گذشتہ سال روزانہ کی بنیاد پر ایک کروڑ بیرل تیل درآمد کیا تھا۔