اپنے علاقے کے ایک بند اسکول کا نوحہ – بصیر احمد

597

اپنے علاقے کے ایک بند اسکول کا نوحہ

 تحریر : بصیر احمد

دی بلوچستان پوسٹ

غالباً دو سال پہلے کی بات ہے، ایک صبح جب میں نیند سے اٹھا تو دیکھا کہ گھر پر ایک بوڑھی خاتون آئی ہوئی تھی، جسے دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا کہ یہ خاتون ہمارے گھر سے کچھ دور پہاڑوں کے سامنے رہتی ہیں، یہ لوگ اپنی زندگی مال مویشی پال کر گذارتے ہیں.

خاتوں نے رسمی سلام علیک کے بعد مجھے متوجہ کرتے ہوے کہا بیٹا آپ اکثر دکھائی نہیں دیتے، کہاں ہوتے ہو، میں نے جواب دیا اماں میں کوئٹہ میں پڑھتا ہوں اکثر چھٹی ملنے پر آتا ہوں، جواب سنتے ہی خاتوں نے ناراضگی سے کہا بیٹا آپ لوگ ماشاءاللہ پڑھ، لکھ کر آفیسر بنیں گے اور ایک ہماری قسمت کہ تعلیم ہمارے بچوں کے نصیب میں نہیں، میں نے جواب دیا نہیں اماں تعلیم تو سب کا حق ہے، اور وقت بدل گیا ہے آپ کے بھی بچے پڑھ لکھ کر آفیسر بن سکتے ہیں، اور اب حکومت نے آپ گھر کے پاس سکول بھی بنا دیا ہے جس سے آپ کے بچے پڑھ سکیں گے، خاتون نے کہا بیٹا اسکول تو تین سال پہلے بنا ہے لیکن ابھی تک کھلا نہیں، نا یہاں کوئی پڑھانے آتا ہے اور نا کوئی پڑھنے، یہ بات کہتے ہوئے خاتون چلی گئی لیکن اپنی بات میرے ذہن میں چھوڑ گئی، مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کے تین سال تک ایک سکول کیسے بند رہ سکتا ہے؟

کچھ دن بعد میں دوستوں کو لیکر سکول کے پاس گیا، اسکول کی حالت دیکھ کر یقین ہوگیا کہ واقعی اسکول کافی عرصے سے بند پڑا ہوا ہے، تب میں نے وہاں کے بچوں سے ایک احتجاج ریکارڈ کروایا اور ایک دوست نے ایک ویڈیو پیغام بھی بنا ڈالا جس میں ہم نے اعلیٰ افسران سے درخواست کی کے ویڈیو کے پیچھے جو سکول تین سال سے بند ہے اسے بچوں کے مستقبل کے لیے کھول دیا جائے۔ ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بھی بنا، پھر کچھ دن بعد ضلعی تعلیمی آفیسر نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر جاری کردیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اسکول کو کھول دیا گیا ہے اور پچے پڑھ رہے ہیں، یہ دیکھ میں بہت خوش ہوا اطمینان ملا کہ اب کی بار جب مذکورہ خاتون سے ملاقات ہوگی تو اس کو بلا جھجک کہہ سکوں گا ’’آپ کا بچہ بھی آفیسر بن سکتا ہے‘‘.

لیکن اور دوستوں نے رابطہ کرکے بتایا کے ان کے علاقوں کے سکول تو بیس بیس سال سے بند پڑے ہیں، پھر کیا تھا، ہم نے عملی جدوجھد کی راہ لی، اپنے آپ سروے کرکے کئی سارے بند اسکولوں کا ڈیٹا جمع کیا، اب ہم ہر بند اسکول بات کرنے لگے ہماری جدوجہد اب تیز ہوگئی تھی، ہم ہر روز ضلعی تعلیمی آفیسر ٹیبل کے سامنے ایک اور سکول بند ہونے کی شکائت رکھ دیتے تھے جس سے وہ ہم سے کافی تنگ تھے، اس درمیاں ہماری ملاقات مختلف شعبوں کے لوگوں سے ہوئی سب ایک بات کرتے تھے کہ سکول بندش سبب سیاست ہے اور آپ اس مافیا سے لڑ نہیں سکتے یہ طاقتور ہیں، یہ لوگ بھی صحیح کہہ رہے تھے کیونکہ ہر روز ہمیں آفیسران اور غیر حاضر اساتذہ سے مختلف قسم کی دھمکیاں موصول ہورہی تھیں، لیکن یہ جد وجہد ہمارے لیے حق سفر تھا جس پر ہم نکل گئے تھے، خاتون کی باتوں نے مجھے بے چین کر رکھا تھا ’’ہمارے بچوں کی قسمت میں تعلیم کہاں‘‘.

اسی درمیان ہم نے ایک تحریری ویڈیو( Documentary) بھی بنائی جو ہزاروں سکول کی بندش پر مبنی تھا، جس میں اساتذہ پر سیاسی سرپرستی یا رشوت دینے کا واضح ثبوت تھا، اس ویڈیو کے بعد سب سچ باہر نکل کر دنیا کے سامنے آگیا، یہ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی اس کے بعد بند اسکولوں سے متعلق پورے بلوچستان میں ایک بحث چھڑ گئی کافی سارے دوست منظر عام پر آگئے، یوں کاروان آگے بڑھتا گیا، یہ محکمہ تعلیم کی ناکامی اور کرپشن کا ثبوت تھا جو عوام کو مل گیا تھا، اور پھر کچھ وقت بعد RTSM کی ایک لسٹ پر سیکریٹری تعلیم نے کارروائی کرتے ہوئے 250 سے اوپر غیر حاضر اساتذہ کو برطرف کردیا جو اس ست پہلے کبھی نہیں ہوا تھا.

لیکن اس لسٹ میں کچھ ایسے بھی لوگ شامل تھے جو اقتداری سیاسی پارٹی کے کارکن تھے جس پر ایک صوبائی وزیر نے اپنے سیاسی ووٹ بینک کو بچانے کے لیے مجبوراً دو دن میں سیکریٹری تعلیم سے برطرف اساتذہ بحال کرنے کا حکم دیا اور صوبائی وزیر نے اپنے دفتر میں اساتذہ بلا ان کے بحال ہونے کےحکمنامہ تصویر کھینچ کر دے دیا، وہ تصویر تو غریب بچوں کے تعلیم کا جنازہ تھا لیکن صوبائی وزیر کے لیئے سیاسی فرض تھا، جو ان کی سیاست کے لیئے ضروری تھا، مجھے ایک سبق ضرور ملا کہ سیاستدان ہمیشہ اپنے ورکر کا کرضدار ہوتا ان کے ہر غلط یا صحیح مسئلے پر مدد نہ کرے تو ورکر اپنا سیاسی تعلق ختم کر دیتا ہے جو سیاسی نقصان ہے ، یہ سیاسی نظام بلیک میلنگ پر مبنی ہے جو ہر طرف سے اس عوام کا زوال ہی کررہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔