انور کھیتران اور بلوچستان- گورگین بلوچ

568

‎صحافی انور جان کھیتران اور بلوچستان

 ‎تحریر : گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎پچھلے دنوں پاکستان کے ایک معروف صحافی مطیع اللہ جان کو جب اغواء کیا گیا مین اسٹریم میڈیا سمیت پورے دنیا میں اس اغواء نما گرفتاری کے خلاف آواز اٹھائی گئی مجبوراً اغواء کاروں کو اسی رات مطیع اللہ جان کو چھوڑنا پڑا ۔

‎اگلے دن بلوچستان کے پسماندہ علاقہ بارکھان جو پنجاب اور بلوچستان کے بارڈر پر واقع ہے مقامی صحافی انور جان کھیتران کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا صحافی کے بھائی نے بارکھان تھانہ میں موجودہ بلوچستان کے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کے دو باڈی گارڈز کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ۔

‎اس قتل کیخلاف پورا بلوچستان سراپا احتجاج رہا بلوچستان کے عوام نے طویل خاموشی اس وقت توڑی جب پچھلے مہینے تربت کے علاقے ڈنک میں ملک ناز نامی عورت ڈاکوؤں سے مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوئی اور اس کی ننھی بچی برمش شدید زخمی ہوئی۔ بلوچستان کے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور بلوچستان بھر میں اس واقعے کیخلاف تحریکیں چلی شہید فدا چوک تربت میں مدتوں بعد عوام کی جم غفیر نے استحصالی قوت کے سامنے جھکنے کے بجائے قاتلوں اور ان کے سرغنہ کے گرفتاری کیخلاف فدا چوک نعروں سے گونج اٹھا استعماریت قوت نے عوام کی طاقت کے سامنے مجبورا اپنے پالے ہوئے ڈاکوؤں کو گرفتار کروایا۔

‎بلوچستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے مگر کسی نے آواز اٹھانے کی جسارت نہیں کی تھی سوائے سوشل میڈیا میں کچھ سنجیدہ نوجوانوں نے ہر ایک سے سوال اٹھانے کی کوشش کی کے تھی ویسے بلوچستان کو پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا نے اس وقت سے بھی نظراندز کیا تھا جو آج بھی جاری ہے جب دو دن پہلے خاران سے تعلق رکھنے نوجوان منظور عیسیٰ زئی پیاز فروخت کرنے کے غرض پنجاب گیا ہوا تھا وہاں انہیں تشدد کرکے مسخ شدہ لاش پھینک دیا گیا اس وقت بھی مین اسٹریم میڈیا کو پنجاب کے بغیر ماسک والے بھیڑ بکریوں کی کوریج یاد آئی مگر اس نوجوان کو بھی بلوچستان کی طرح نظراندز کیا گیا۔

‎صحافی مطیع اللہ جان چونکہ خود پاکستان کے مرکزی میڈیا سے منسلک رہے ہیں اس لیے صحافی ہونے کے ناطے اور اسلام باد سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پورا دن رات پاکستان کے صحافی اس کے اغواء نما گرفتاری کیخلاف کوریج دیتے رہے رہائی تک صحافی اس کے ساتھ رہے بلوچستان میں مجھے صحافی ارشاد مستوئی سمیت خضدار،تربت ،گوادر ،حب کے وہ صحافی بھی یاد آئے ان کو گولیوں سے چھلنی کرکے لاش پھینکی گئی مجال نہیں کہ مین اسٹریم میڈیا نے اپنے ان صحافیوں کے حوالے سے کوئی کوریج کی گزشتہ دنوں ایک دوست کہ رہا تھا جیسے لگتا ہے ہم پاکستان کے کسی نامعلوم کالونی میں رہ رہے ہیں اس کا شکوہ برحق ہے۔

‎صحافی انور جان کھیتران کے قتل کیخلاف سب سے بڑا احتجاجی جلسہ اس کے علاقے بارکھان میں کیا گیا جہاں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور صحافی کے قتل کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا احتجاج کی قیادت نیشنل پارٹی کے مرکزی لیڈر کریم کھیتران کر رہے تھے احتجاجی جلسے میں جمعیت علمائے اسلام ،بلوچستان نیشنل پارٹی، سمیت سول سوسائٹی کے رہنما شامل تھے۔

‎صحافی کے قتل کیس میں شامل سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپنے پرسنل نمبر سے کسی وٹساپ گروپ میں ایک میسج سینڈ کیا ہوا تھا جہاں مقتول صحافی کو آئی ایس آئی کے تشکیل کردہ گروہ ڈیتھ اسکواڈ کا کارندہ ظاہر کیا ہوا تھا اور مزید وہاں لکھا تھا موصوف صحافی بلوچ نوجوانوں کی قتل اور اغواء میں شریک ہے لیکن اس نیوز میں کسی مسلح تنظیم نے اس واقعے کی زمہ داری قبول نہیں کی۔

‎بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا تھا مقتول کوئی صحافی نہیں تھا بلکہ ایک بلیک میلر تھا لوگوں کو بلیک میل کرتا تھا اگر واقعی میں مقتول صحافی ایک بلیک میلر تھا تو ہزاروں کی تعدار میں لوگوں نے اس کی جنازے میں کیوں شرکت کی کیوں وہ ہزاروں لوگ موصوف صحافی کے لیے آبدیدہ اور آنسو بہا رہے تھے ۔
‎لیکن بارکھان سے تعلق رکھنے والے ایک ہم ٹی وی کے صحافی نے یہ تصدیق کی مقتول صحافی روالپنڈی سے جاری ہونے والے ایک اخبار کے نمائندے تھے ۔

‎نوجوانوں کی غم و غصّہ آج بھی اسی طرح جاری ہیں نوجوان طبقہ پاکستان کے تمام صحافتی حلقوں پر تنقید کرتے آرہے ہیں ان کا مطالبہ ہے بلوچستان حکومت میں بیٹھے ہوئے صوبائی وزیر کا فوری طور قلمدان واپس لیا جائے اور گرفتار کیا جائے۔

‎گذشتہ دنوں پاکستان کے معروف صحافی اینکر پرسن حامد میر ،سلیم صافی نے سوشل میڈیا پر مقتول صحافی کے قتل کا بھرپور مذمت کی تھی اور حکومت سے اپیل کی تھی قاتلوں کو گرفتار کیا جائے مگر موصوف صحافیوں مین اسٹریم میڈیا میں اپنے ایک بھی پروگرام میں مقتول صحافی کے لیے کوئی ایک پروگرام بھی نہیں کیا ۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔