خضدار سنی کے رہائشی ذکریا نتھوانی، عبداللہ نتھوانی، عبدالواحد نتھوانی، عبدالغنی نتھوانی، عبدالقادر نتھوانی و دیگر نے اپنے خاندان کی خواتین کے ہمراہ خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم ایک فریاد لیکر ذرائع ابلاغ کے پاس آئے ہیں کہ پچھلے مہینے چند بااثر لوگ اسلحہ سمیت ہم پر حملہ آور ہوئے ہماری خواتین کو مارا انہیں زخمی کردیا گیا چادر و چار دیواری کی تقدس کو پائمال کیا گیا،ہم مارے گئے، ہماری خواتین زخمی ہوئے، اس کے باوجود نہ ہماری میڈیکل سرٹیفکیٹ بنی اور نہ ہی ہماری ایف آئی آر کاٹی گئی، کمشنر قلات ڈویژن، ڈپٹی کمشنر خضدار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لیکر ہمیں انصاف فراہم کریں۔
پریس کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ہم سنی کن کے رہائشی پُرامن وبے ضرر لوگ ہیں اور ہم اپنی اراضی پر بیٹھے ہیں سنی کُن میں ہماری جدی پشتی اراضی واقع ہے، 1982ء اور اس سے قبل کی سٹلمنٹ میں تمام ڈگریز ہمارے پاس موجود ہیں ہم زر خرید نہیں بلکہ اپنے آباؤ اجداد سے اس زمین کے مالک ہیں۔ تاہم اب بااثر لینڈ مافیا اتنا بے قابو ہوچکا ہے کہ وہ کئی کلومیٹر دور اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے گھر تک آ پہنچے ہیں۔ نہ صرف ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ وہ ہمیں جان سے مارنے کی بھی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایک دن وہ سنی کہن میں آکر ہمارے لوگوں پر حملہ آور ہوئے ہماری خواتین پر حملہ کرکے ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا انہیں زخمی کردیا گیااب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے نام لیکر الزام عائد کیا کہ خضدار کھٹان کے رہائشی میر اورنگزیب زہری اور ان کا بھائی جوادزہری یہاں سے ٹریکٹر اپنے ساتھ لیکر اور پندرہ سے بیس لوگ ساتھ ملا کر ہمارے علاقے میں مسلح ہو کر آئے تھے ان کی پشت پناہی محمد اقبال نتھوانی عرف اکو،محمد ابراہیم نتھوانی کررہے تھے جو کہ لینڈ مافیا کے لوگ ہیں اور ان کی تاریخ سے پورا خضدار واقف ہے دو افراد اپنی زمینیں بیچ کر کھا چکے ہیں اور اب مسلح افراد کا سہار الیکر ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔جب یہ لوگ وہاں آئے تھے تو میں ذکریا نتھوانی اور ہمارے دوسر ے مرد حضرات وہاں موجود نہیں تھے۔ ہمارے خاندان میں سے ایک چھوٹا لڑکا وہاں جاکر انہیں کام کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی تھی،ان مسلح لوگوں نے انہیں کلاشنکوف کے بٹ سے مارے تھے زدو کوب کیا تھاجس سے وہ زخمی ہوگیا ، اس کے بعد ٹریکٹر ڈرائیور کام نہ کرنے کی حامی بھر لی تھی، تاہم یہ مسلح لوگ خود ٹریکٹر پرچڑھ کر ڈرائیور سے زبردستی کام کروانے شروع کردیئے تھے۔اس کے بعد ہماری خواتین نے انہیں روکنے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے چادر و چار دیواری کی تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا بلکہ وہ ہماری خواتین پر بھی حملہ آور ہوئے انہیں بھی کلاشن کوف کے بٹ مارے تھے۔ہماری خواتین کے ہاتھ اور پاؤں و جسم کے دیگر حصے زخمی ہیں۔ اس کے بعد مذکورہ بااثر شخص اپنے دیگر مسلح افراد کے ہمراہ ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔جب لیویز فورس کو اطلاع ملی تھی کہ سنی کہن میں بااثر افراد نے وہاں کی خواتین پر حملہ کیا ہے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے تولیویز انتظامیہ وہاں موقع پر آکر خود صورتحال کا جائز لیا تھا، اور لیویز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہاں خواتین پر حملہ ہوا ہے اور ان پر تشدد بھی ہواوہ زخمی بھی ہوئے ہیں، ان زخمی خواتین کو خود لیویز فورس اپنی موبائل گاڑی میں طبی امداد کے لئے ہسپتال لائی تھی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس تمام تر صورتحال کے بعد خضدار میں ڈاکٹرز کا انصاف دیکھ لیں کہ زخمی بھی ہماری خواتین ہوئیں، ان پرتشدد کیا گیا، جس کی تصدیق خود سرکار یعنی لیویز فورس نے موقع محل اورزخمیوں کو دیکھ کر کیا اور زخمیوں کو ہسپتال بھی لیویز فورس اپنی موبائل گاڑی میں لیکر آئی، اس کے باوجود خضدار میں ڈاکٹر نے ہماری خواتین کو نہ زخمی ہونے کی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کیا اور نہ ہی کسی لیڈی ڈاکٹر نے ہماری زخمی خواتین کے زخموں کا معائنہ کرنے کی زحمت کی، یہ ہے کہ انصاف اور یہ ہے ان کی خداترسی، بعد ازاں جب ہم تحصیلدار کے پاس گئے تو وہاں ہماری خواتین پر حملہ آور ایک بااثر شخص پہلے سے بڑے آرام کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہا تھا، او رانہوں نے تحصیلدار کے سامنے مجھے واضح الفاظ میں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اور راتوں رات ہم پر ایف آئی آر کا ٹی گئی، جس دن یہ لڑائی ہوئی اس دن میں ذکریا نتھوانی قلات میں تھا، مجھے اس واقع کی اطلاع فون پر دی گئی۔انہوں نے کہاکہ ہماری خواتین پر حملہ ہوا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور ہمیں میڈیکل سرٹیفکیٹ تک بھی نہیں دی گئی۔ ہم بے بس اور غریب لوگ ہیں، ہمار ے ساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم ہواہے۔ ایک تو ہم مارے بھی گئے اور پھر ایف آئی آر بھی ہم پر درج ہوا،ہماری خواتین پر تشدد کرنے والے دندانتے پھر رہے ہیں اور ان پر کوئی ایف آئی آر کاٹی نہیں جارہی ہے، لیویز کی جانب سے ہماری ایف آئی آر درج نہ ہونے پر ہم نے مجبوراً معزز عدالت سے ایف آئی آر کے لئے رجوع کرلیا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مذید کہنا تھاکہ آج ہم اپنی خواتین کے ہمراہ پریس کلب میں فریاد لیکر آئے ہیں اور خواتین کو اس لیئے لیکر آئے ہیں کہ ان پر ہونے والے تشدد آپ ملاحظہ کریں اور ان کے زخم دیکھ لیں، چونکہ ڈاکٹرز نے ہمیں میڈیکل سرٹیفکیٹ نہیں دیا اور لیویز فورس نے ہماری ایف آئی آر نہیں کاٹی۔ آخری سہارا ہم نے اپنی فریاد حکام بالاتک پہنچانے کو سمجھا اور یہاں پریس کلب آئے ہیں۔ آپ ہی کی توسط سے ہم کمشنر قلات ڈویژن، ڈپٹی کمشنر خضدار سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف کریں، وہ خود موقع کا جائزہ لیکر اپنی رپورٹ بنائیں اور دیکھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ظلم ہواہے اور مستقبل میں یہ لوگ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور ہماری حقِ ملکیت کو زبر دستی ہم سے قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس معاملے پر گورنمنٹ ہمیں تحفظ اور انصاف فراہم کرے۔۔