ارضی جنت کےخاموش کردار – عدید

166

ارضی جنت کےخاموش کردار

تحریر : عدید

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی معاشرے میں نفسیاتی کلینکی طریقے سے کوئی فرد اپنے مسئلے کے نفسیاتی علاج کےلیے بھاگ دوڑ شروع کرتاہے . تو مسئلے کے تشخیص کے لیے اس کے گذشتہ اور موجودہ حالات زندگی کا تفصیلی جائزہ لیاجاتاہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کا موجودہ مسئلہ کن مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا شدہ ہے. سخت گیر معاشرہ یاسوسائٹی ہمیشہ جبر اور استحصال کے برعکس ایک وجودی حیثیت رکھتا ہے. کیونکہ جبر ایک غیر فطری اور بد کارعمل ہے جس سے ہمیشہ شورش زدہ خیالات انقلابی ثقافت کے ساتھ جنم لیتےہیں اور ناقابل برداشت خطروں سے ایک نئی مستقل مزاج انسرجنسی کی پیدا ہونے میں زیادہ سے زیادہ چانس شعوری آگاہی کےساتھ بڑھ جاتےہیں.

ان پچیدگیوں اور مشکلات کے باوجود طلباء کی حصول تعلیم کےلیے جدوجہد جاری رکھنا. ایک پختہ ذہانت کا سچی معروضی شعور کا اظہار ہوتا ہے انسانی زندگی کے لیے علمی قلمی طریقے سے جنگ لڑنے والے معاشرے میں ایک الگ شناخت اور موضوع کا سماجی استاد یا دانشوربن جاتاہے۔ اسی تناظر میں بلاشبہ وہ عوامی زندگی کے لیے ایک بہترین نفسیاتی نظام بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتاہے. بلوچ طلباء کی سیاست کو جڑ سے اکھاڑنے کی خاطر تعلیمی نظام کو انتہائی مقاصد و منصوبے کے ساتھ حکمت عملی سےنشانہ بنایاجارہاہے تاکہ ان کے مستقبل کا ضیاع وسیع پیمانہ پر ہو۔

یہیں سے موجودہ سماجی اور اخلاقی تہذیب کا بحران جنم لے رہاہے، جبکہ بلوچ دانشوروں کا اپنے اردگرد کے ماحول میں تعلیمی نظام پر آزمائشوں کاپس منظر کو جانتے ہوئے بھی خاموش رہنا۔ ۔نبض بلوچیت پر پاوں رکھنے کے مترادف ہے یا نالائق ذہنوں کو وسیع ذہنوں پر سے زیادہ ترجیح دینا، تعلیم دشمنوں کا ایک گہرا اور غلط تسلسل کا ڈسپلن سے تعلق رکھتاہے یہیں سےاستاد کا طلباء دشمن پالیسوں میں مشروط عمل حقیقت کی پسپائی کے سوا کچھ بھی نہیں. ذہنی سکون کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں خود کو چپ رکھنا، دانشور کی لاشعوری محرکات پیشہ وارانہ دیگر ذاتی مفادات کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کررہاہے کہ معاشرے میں بلوچ دانشور کا کردار ماسوائے ایک غیبت کار فوقیت کی حیثیت سے یا پروپیگنڈہ مینجمنٹ کےسوا باقی کچھ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ استاد ایک قوت ارادی کے ساتھ لاچاروں کی راہشونی میں کلیدی کردار اداکرسکتاہے.

محکوموں کی ترقی میں ایک وہ دانشوراستادہی ہوتاہے جو ماحول میں جدلیاتی حالات کو عقلمندی سےسمجھ سکتاہے، بنسبت دیگرمعاشرتی افرادکے۔۔ دانشور وا ستاد ذاتی آزادی سےبے مطلب رہتاہے بلکہ اسی عقیدے پر ایک مثالی کردارماضی میں ہمارے سامنے صباءدشتیاری کی شکل میں موجود تھا، جومظلومی حالات کامقصد چیخ وچلاکرعوامی حلقوں میں بیان کرتانظر آتاتھا۔ ہمیں تویہ احساس حیرت کےساتھ ہوتی تھی کہ یہ شخص انتہائی بہادری اورزندگی سے ہاری اپنا صحت مند لب و لہجہ کس پر خطرانداز سے استعمال کررہاہے، شاید یہ بھول چکا ہےکہ بذات خودگورنمنٹ کاسرکاری سروینٹ پرایک تعمیرنوکےلیے پوزیشن سنبھال رہاہے۔ وہ اپنی اسکیل منافع خوری کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے تھے بلکہ سقراط کی طرح زہر پیالہ پینے تک دل برداشتہ نہیں ہوئے وہ گاڈی اور گھرخریدنے سے زیادہ لائبریری بنانےکوترجیح دیتے، وہ زبان کی ترقی وترویج کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ تک نہیں پھیلاتے۔ کبھی چندہ نہیں لیا۔ وہ اپنے قلم سےبلیک میلنگ کی رواج کو ترقی نہیں دی بلکہ خودکوطلباءکی حقیقی وارث راہنماء سمجھتے تھے۔ جہاں ضرورت پڑی ہروہ عمل میں پیش پیش رہابشمول اپنے شاگردوں و معاشرے پر ہر ہونے والی جبر استحصال کے کیخلاف کبھی خاموشی اختیار نہیں کیا. تواب خاموشی سے سرکاری مراعات پرزندگی بسرکرنےوالے پراسراربلوچ دانشور توچیخ کر استاد کی قدردانی کے دفاع کرنے میں ایک ناکام کوشش کررہےہیں لیکن یہ ایک ناممکن پیشہ ورانہ کلچر کی بطور ایک من گھڑت طریقہ کارہے دانشور استادوں کی خاموشی، بےمقصدیت سے حقیقی زندگی کےخلاف کچھ مختلف باتیں کررہےہیں۔ آج میرا ضمیراستاد کی دانشوری سے مطمین نہیں رہا بلکہ مجھ جیسے ہزاروں ایسی سوچ رکھنےوالےطلباء جن پر تعلیمی دروازے مختلف لحاظ سےبند کیے جارہےہیں اور استادان محترم خاموشی سے کھڑے ریاست اور انقلاب کے مزے لوٹ رہےہیں جوکہ استادوں کاخود غرضانہ جستجوکے شاہکاروں کا احترام کرتے ہوئے اپنا علمی جرات کاگلہ روزانہ کی بنیادپر گھونٹ رہےہیں۔

انسانی رویوں کا تعلق ہمیشہ فطری زہنی رویوں سےرہاہے، میراذاتی تجربہ اس امرپر ہمیشہ رہاہے کہ جن بلوچ دانشوروں کو موجودہ سماج کابےراہ روی سائیکی معلوم نہیں ہوپارہا۔۔وہ کیسے قومی شعورکا صحیح راہیں متعین کرسکیں گے جو آنےوالے پانچ سال کاقومی پری پلین سماج میں تشکیل نہیں دےسکتے ہیں، ہمارے پلیٹ فارموں سمیت قومی اداروں میں کنفیوژن نفسانفسی جیسے مسائل بھی پیداکررہےہیں۔

جن اداروں سے قومی وابستگیاں ہیں ان سے حقیقی طورپرسلیس استفادہ نہ یہ خودکررہےہیں اورنہ ہی عوام کوکرنےدیتےہیں ہرادارے میں کوئی نہ کوئی شخصیت روایتی انداز سےاپنے ذاتی مفادات کا پوراواری کررہاہے اورہمارے طلباء جن اساتذہ کرام کو بلوچ معاشرے کا پیغمبردانشور سمجھتے ہیں بلکہ طلباء پرہونے والی جبر کا مزا یہی دانشور حضرات خفیہ طور پر اپنے زاویہ سے کہیں دور کھڑے تماشائیوں کی طرح انجوئے کررہےہیں آج HEC کے جانب سے طبقاتی تعلیمی نظام پر خاموشی ایک بہیمانہ بلکہ مجرمانہ غیر مافی الضمیر حرکت ہے۔ اس سارے سسٹم کو جانتے ہوئے بھی ہمارے سارے خود پرست باتونی افلاطون افکاری ارسطو یعنی موجودہ اساتذہ کی ضروریات گردی اپنی حد کو پہنچ گئی ہیں۔۔ شاید ان کی خاموشی انہیں یوٹوپیائی یعنی ارضی جنت کے کرداری مالک بنا دیں لیکن باز اوقات مجھے وہ کہاوت بہت یاد آتی ہے کہ کوا ہوشیاری سے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔